Maktaba Wahhabi

289 - 559
مطابق تقسیم کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ (واللہ اعلم) مسئلہ وراثت سوال: ہمارے بھائی پچھلے دنوں فوت ہوئے، پسماندگان میں بیوہ، تین لڑکے اور ایک لڑکی ہے، جو ابھی نابالغ ہے۔ بیوہ نے اس کی تمام جائیداد پر قبضہ جما رکھا ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں کہ بھائی کی جائیداد میں ہمارا کتنا حصہ ہے؟ جواب: اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ضابطہ میراث بیان کرنے کے بعد فرمایا ہے: ﴿تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ وَ مَنْ يُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ يُدْخِلْهُ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِيْنَ فِيْهَا وَ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُO وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَ يَتَعَدَّ حُدُوْدَهٗ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيْهَا وَ لَهٗ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ﴾[1] ’’یہ حدیں اللہ تعالیٰ کی مقرر کر دہ ہیں اور جو انسان اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے گا اسے وہ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرر کردہ حدوں سے تجاوز کرے گا، اسے وہ جہنم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ایسے لوگوں کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔‘‘ بیوہ کا حصہ نکالنے کے بعد باقی ترکہ مرحوم کی نرینہ اور مادینہ اولاد کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو اور جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کا ہے۔‘‘[2] میت کے قریبی رشتہ دار، اس کے بیٹے ہیں اور وہ اپنی بہنوں کو بھی اس جائیداد میں شریک کریں گے، باقی ماندہ جائیداد اس طرح تقسیم کی جائے، کہ ایک بیٹے کو بیٹی سے دوگنا حصہ ملے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ﴾[3] ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ سہولت کے پیش نظر مرحوم کی جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں۔ ایک حصہ بیوہ کو، دو، دو حصے ہر لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے، بھائیوں کو اس کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا۔
Flag Counter