Maktaba Wahhabi

567 - 559
بلاوجہ ان کا استعمال جائز نہیں، یا غیر شرعی ضرورت پیدا کر کے اس کا جواز پیدا کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مسند سعید بن منصور کے حوالے سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق لکھا ہے، ان سے پوچھا گیا، جو عورت حیض کو مؤثر کرنے کے لیے کوئی دوا نوش کرے تاکہ وہ اپنے ہم سفر محرم کے ساتھ واپس جا سکے تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ انہوں نے اس کے لیے پیلو کے پتوں کو تجویز کیا، یعنی ان کے پتوں کو رگڑ کر بدرقہ نوش کیا جائے یا انہیں پانی میں جوش دے کر استعمال کیا جائے۔[1] اسی طرح حنابلہ کے متعلق امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے لکھا ہے: ’’اگر کوئی عورت انقطاع حیض کے لیے دوا نوش کرتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ دوا اس کام کے لیے معروف ہو۔‘‘[2] ہمارے رحجان کے مطابق زندگی میں دو مقامات پر اس کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ۱۔ رمضان المبارک میں ایسی ادویات کا استعمال کرنا تاکہ آرام اور سکون سے روزے رکھے جاسکیں لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اس کی رخصت دی ہے تو ہمیں خواہ مخواہ ان مضر صحت ادویات کو استعمال کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے باوجود اگر کوئی خاتون شوق عبادت سے سرشار ہو کر ایسا کرتی ہے تو اس کے روزے صحیح ہیں اور اس پر طہارت کے احکام لاگو ہوں گے۔ ۲۔ حج کے دوران مانع حیض گولیوں کا استعمال کرنا تاکہ اطمینان کے ساتھ مناسک حج ادا کیے جائیں تاہم اس کے متعلق بھی ہماری گزارش ہے کہ جب اس عارضہ کی موجودگی میں مناسک حج ادا کیے جا سکتے ہیں، مثلاً منیٰ میں جانا، میدان عرفات میں ذکر و استغفار کرنا، مزدلفہ میں مناسک حج ادا کرنا پھر منی آ کر جمرات کو کنکریاں مارنا وغیرہ تو اس تکلف میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ طواف افاضہ کا معاملہ ہے، اسے بھی انقطاع حیض تک مؤخر کیا جا سکتا ہے، اگر ایسا ممکن نہ ہو تو سعودی علماء کے فتویٰ کے مطابق لنگوٹ باندھ کر طواف افاضہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ صفا مروہ چونکہ مسجد حرام سے باہر ہے اس لیے دوران حیض سعی کرنے میں چنداں حرج نہیں۔ طواف وداع بھی اس عورت سے ساقط ہے، ہم نے دیانتداری کے ساتھ اپنا موقف لکھ دیا ہے اگر کسی کو دلائل کی وجہ سے اتفاق نہ ہو تو مانع حیض ادویات استعمال کر کے فریضہ حج ادا کیا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم! رحم مادر میں جنین کی جنس کا پتہ چلانا سوال: آج کل یہ دعویٰ سننے میں آ رہا ہے کہ جدید طبی آلات اور الٹراساؤنڈ مشینوں کے ذریعے ماں کے پیٹ میں پرورش پانے والے بچے کی جنس کا پتہ چلایا جاتا ہے کہ وہ نر ہے یا مادہ جبکہ قرآن میں ہے کہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے۔ اس دعویٰ کا شافی حوالہ درکار ہے۔ جواب: اس میں شک نہیں کہ رحم مادر میں پرورش پانے والے بچے کی شکل و صورت ، نیکی و بد، غنی و فقیر اور اس کے مذکر و
Flag Counter