Maktaba Wahhabi

366 - 559
ہمارے معاشرہ میں طلاق کے ساتھ ہی جس طرح عورت کو دھکے دے کر نکال دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ لڑکی والے اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ رواج اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ مطلقہ عورت کے احکام درج ذیل بیان کیے جاتے ہیں، تاہم اس بات کی وضاحت کر دینا ضروری ہے، کہ اسے والدین نے جہیز یا تحائف کی صورت میں جو کچھ دیا ہے وہ اس کی مالک ہے، اور اسے بہرصورت ملنا چاہیے، خاوند کا اس پر قبضہ کر لینا صحیح نہیں۔ ٭ مطلقہ عورت کو تفریق کے وقت اچھی طرح فائدہ دینا تقویٰ شعار لوگوں کی علامت ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔[1] ایسے حالات میں مطلقہ عورت کے ساتھ حسن سلوک کا اہتمام کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔کاش کہ ہم اس پر عمل کریں، اس کے بے شمار معاشرتی فوائد ہیں۔ ٭ مطلقہ رجعیہ، طلاق ملنے کے باوجود یعنی اپنے خاوند کی بیوی ہے، اس کے جملہ اخراجات اور رہائش وغیرہ خاوند کے ذمے ہیں، خاوند کو اس سے راہ فرار اختیار کرنے کی شرعاً اجازت نہیں۔ ٭ مطلقہ بائنہ خاوند کے نکاح سے فارغ ہو جاتی ہے، اب اس کی رہائش اور اخراجات خاوند کے ذمے نہیں ہیں۔ ٭ مطلقہ کے پاس اگر خاوند کے بچے ہوں تو ان بچوں کے اخراجات خاوند نے ہی ادا کرنا ہیں۔ معروف طریقہ کے مطابق وہ انہیں ادا کرنے کا پابند ہے۔ صورت مسؤلہ میں خاوند کا مطلقہ بائنہ کے جہیز پر قبضہ کرنا شرعاً درست نہیں، اس کی واپسی کے لیے اس نے عدالت کی طرف رجوع کیا ہے، اس سلسلہ میں وہ حق بجانب ہے، خاوند کو چاہیے کہ وہ جہیز حق مہر اور دیگر ملنے والے تحائف واپس کرے۔ بلکہ ان کے علاوہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اسے اچھے انداز سے تھوڑا بہت مال دے کر فارغ کیا جائے۔ پھر مطلقہ بیوی کے پاس اس کی تین سالہ بچی ہے، اس کے جملہ اخراجات بھی خاوند کے ذمے ہیں، بہتر ہے کہ وہ عدالتی چارہ جوئی کے بغیر ہی انہیں ادا کرتا رہے۔ واللہ اعلم! بیوی کی رفاقت آخری خاوند سے سوال: میرے خاوند عرصہ آٹھ سال سے فوت ہو چکے ہیں، عدت گزارنے کے بعد مجھے اچھے رشتوں کی پیش کش ہوئی لیکن میں نے شادی نہیں کی، کیوں کہ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ قیامت کے دن بیوی اپنے آخری خاوند کے ساتھ ہو گی، اس کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ جواب: اگر کوئی عورت فوت ہو جائے اور اس نے اپنی زندگی میں ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوں اور اس کے یکے بعد
Flag Counter