Maktaba Wahhabi

69 - 559
اس حدیث کے مطابق وضو کرنے میں مرد و زن سب برابر ہیں، ان میں کوئی فرق نہیں لیکن اس مقام پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ عورت کے سر کے نیچے جو بال لٹک رہے ہیں، ان کا مسح کرنا ضروری نہیں، وہ صرف سر کا مسح کرے گی جیسا کہ قرآن میں ہے۔ لٹکتے ہوئے بال اس کے سر سے باہر ہیں، وہ صرف اپنے سر پر مسح کرنے کی پابند ہے۔ واللہ اعلم بچوں کی صفائی کے بعد وضو کرنا سوال :میں نے وضو کیا ہوتا ہے، اس کے بعد بچوں کی صفائی کی ضرورت پڑتی ہے یا انہیں نہلانا ہوتا ہے، کیا مجھے اس کے بعد دوبارہ وضو کرنا ہوگا؟ اس متعلق قرآن وحدیث میں کیا ہدایات ہیں، وضاحت کر دیں؟ جواب: شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے وضو ٹوٹنے یا نہ ٹوٹنے کی دونوں روایات کتب حدیث میں مروی ہیں چنانچہ سیدہ بسرہ بنت صفوان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی اپنی شرمگاہ کو ہاتھ لگائے اسے چاہیے کہ وضو کرے۔‘‘[1] بلکہ سیدنا طلق بن علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم وفد کی صورت میں اپنے علاقے سے نکلے حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ سے بیعت ہوئے اور نماز ادا کی، نماز ختم ہونے کے بعد ایک بدوی سا آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! اس آدمی کے متعلق کیا حکم ہے جو نماز میں اپنی شرمگاہ کو چھو بیٹھتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ بھی تیرے جسم کا ایک ٹکڑا ہی ہے۔‘‘[2] ان دونوں احادیث میں تطبیق کی یہ صورت ہے کہ اگر براہ راست بغیر کسی حائل رکاوٹ کے شرم گاہ کو ہاتھ لگے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ درمیان میں کپڑا وغیرہ ہو تو پھر وضو نہیں ٹوٹتا، اس بات کی صراحت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں موجود ہے۔[3] اس کے علاوہ سیدنا طلق رضی اللہ عنہ کی روایت پہلے کی ہے کیوں کہ وہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو اس وقت مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی اور سیدہ بسرہ رضی اللہ عنہا کی روایت بہت بعد کی ہے کیوں کہ انہوں نے فتح مکہ والے سال ۸ہجری کو اسلام قبول کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہمارا رجحان یہ ہے کہ اگر کپڑے کے بغیر شرمگاہ کو چھوا جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ اس حکم میں مرد اور عورت دونوں برابر ہیں، اگلی اور پچھلی دونوں شرمگاہ کا ایک ہی حکم ہے۔ نیز اپنی شرمگاہ کی طرح دوسرے کی شرمگاہ کو ہاتھ لگانے سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے لیکن صورت مسؤلہ میں بچوں کی شرمگاہ کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ اگر انہیں استنجاء کرانے سے وضوء ٹوٹ جائے تو یہ عام مصیبت بن جائے کیوں کہ اس میں بہت حرج اور تکلیف ہے۔ اگر یہ عمل ناقض وضو ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام سے ضرور منقول ہوتا۔ بہرحال صفائی کی غرض سے بچوں کی شرم گاہ کو ہاتھ لگانا ناقض وضو
Flag Counter