Maktaba Wahhabi

272 - 559
’’کیا میں اپنے مال سے دو تہائی وصیت کر سکتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ انہوں نے عرض کیا نصف مال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر عرض کیا: ایک تہائی مال کی وصیت کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کی وصیت کر سکتے ہو لیکن یہ بھی زیادہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘[1] ان ورثاء کے حق میں وصیت نہ کی جائے جو ترکہ میں حصہ لینے والے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حق دار کا حق مقرر کر دیا ہے، اب کسی وارث کے لیے وصیت کرنا جائز نہیں۔‘‘[2] صورت مسؤلہ میں بیٹی کو باپ کی جائیداد سے حصہ ملتا ہے، اس لیے بیٹی کے حق میں باپ کی وصیت کالعدم ہے، اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ بلکہ دکان کے کرایہ کو ترکہ میں شامل کر کے ورثاء میں بقدر حصص تقسیم کیا جائے گا۔ ہاں اگر تمام ورثاء اس پر دل کی رضامندی سے خوش ہوں تو دکان کا کرایہ بیٹی کو دیا جا سکتا ہے۔ بصورت دیگر وہ صرف اپنے حصہ کی حق دار ہے۔ واللہ اعلم! ذوی الارحام کی وراثت سوال: ہمارے ایک عزیز لاولد فوت ہوئے ہیں، اس کی بیوی پہلے ہی وفات پا چکی تھی، پس ماندگان میں ایک پھوپھی اور ایک بھانجی موجود ہے، اس کا ترکہ کیسے تقسیم ہو گا؟ جواب: شریعت میں مرنے والے کے ورثاء کی تین اقسام حسب ذیل ہیں: ٭ اصحاب الفرائض: وہ رشتے دار جن کے حصے کتاب و سنت میں متعین کر دئیے گئے ہیں مثلاً خاوند او ر بیوی۔ ٭ عصبات: میت کے وہ قریبی رشتہ دار جن کے حصے متعین نہیں ہیں بلکہ اصحاب الفرائض سے بچا ہو اترکہ لیتے ہیں اور ان کی عدم موجودگی میں تمام ترکہ کے وارث بنتے ہیں، مثلاً بھائی اور چچا وغیرہ۔ ٭ ذوی الارحام: وہ قریبی رشتہ دار جو اصحاب الفرائض یا عصبات نہ ہوں مثلاً ماموں یا پھوپھی وغیرہ۔ صورت مسؤلہ میں مرحوم کے پسماندگان میں سے صرف پھوپھی اور بھانجی زندہ ہے، ان کا تعلق بھی ذوالارحام سے ہے، ان کی وراثت کے متعلق اہل علم میں اختلاف ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ ذوی الارحام وارث نہیں بنتے۔ اصحاب الفرائض اور عصبات کی عدم موجودگی میں ترکہ بیت المال میں جمع کر دیا جائے۔ جبکہ اکثر اہل علم کا موقف ہے کہ اصحاب الفرائض اور عصبات کی عدم موجودگی میں ذوی الارحام وارث بنیں گے۔ ہمارے رحجان کے مطابق عقل و نقل کے اعتبار سے یہ دوسرا موقف ہی درست اور مبنی برحقیقت ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ﴾[3]
Flag Counter