Maktaba Wahhabi

279 - 559
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماموں کو اس وقت وارث بنایا ہے جب دوسرا کوئی وارث موجود نہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ماموں! اس وقت وارث ہو گا جب کوئی دوسرا وارث موجود نہ ہو۔‘‘[1] واللہ اعلم! فضائی حادثہ میں ہلاکت سوال: میرے چچا اور ان کے شادی شدہ بیٹے کی وفات ایک فضائی حادثہ میں ہوئی ہے، چچا کی بہو، اس کی وراثت سے حصہ مانگتی ہے، جبکہ اس کی شادی کو چند ماہ ہوئے ہیں۔ قرآن و حدیث کی رو سے اسے کچھ ملتا ہے یا نہیں وضاحت فرمائیں؟ جواب: ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ کسی حادثہ میں فوت ہونے والے حضرات ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے جبکہ ان کی اموات کے متعلق تقدیم و تاخیر کا علم نہ ہو بلکہ ان کے ورثاء جو زندہ ہوں وہ ان کے وارث ہوں گے۔ جیسا کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا: سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے انہیں جنگ یمامہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے طاعون عمواس میں فوت ہونے والوں کے بارے میں حکم دیا کہ زندوں کو فوت شدہ کا وارث بنائیں، اور ان کو آپس میں ایک دوسرے کا وارث بنائیں۔‘‘[2] اس روایت کے پیش نظر جو لوگ کسی حادثے میں ایک ساتھ ہلاک ہو جائیں مثلاً مکان کے نیچے دب کر یا آگ میں جل کر یا پانی میں ڈوب کر مر جائیں اور یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کس کا پہلے اور کس کا بعد میں انتقال ہوا ہے تو وہ ایک دوسرے کے وارث نہیں بنتے اور نہ ہی ایک کی جائیداد سے دوسرے کو کوئی حصہ دیا جاتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں ایک فضائی حادثہ میں باپ بیٹے کی ہلاکت ہوئی ہے اور یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ بیٹے کا انتقال باپ کے بعد ہوا ہے تو بیٹا اپنے باپ کی جائیداد کا وارث نہیں ہوگا۔ جب بیٹے کو باپ کی جائیداد سے کچھ نہیں ملتا تو اس کی بہو کو کیسے مل سکتا ہے؟ ایسے حالات میں بہو کو اپنے سسر کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا۔ مردوں میں دوسرے ورثاء کی وضاحت نہیں، اگر کوئی دوسرا وارث موجود نہیں ہے تو سائل جو مرنے والے کا حقیقی بھتیجا ہے۔ عصبہ ہونے کی حیثیت سے تمام جائیداد کا حق دار ہے۔ البتہ باپ کے ساتھ فوت ہونے والے شادی شدہ بیٹے کا اگر کوئی ترکہ موجود ہے تو اس کی جائیداد سے بیوہ کو چوتھا حصہ ملتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ﴾[3] ’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو تمہاری عورتوں کا ترکہ میں سے چوتھا حصہ ہے۔‘‘ چونکہ مرنے والے بیٹے کی اولادنہیں اس لیے بیوہ کو اپنے خاوند کی جائیداد سے چوتھا حصہ دیا جائے۔ اس سلسلہ میں ہم یہ مشورہ ضرور دیں گے کہ اگر بیٹے کی کوئی جائیداد وغیرہ نہیں تو مرحوم کی بیوہ کو اس کے سسر کی جائیداد سے کچھ نہ کچھ ضرور دیا جائے
Flag Counter