Maktaba Wahhabi

54 - 153
کتاب و سنت اور اہل علم کی اس تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی نرمی نیز امت کے ساتھ اس کی شفقت کی یہی عملی صورت ہے کہ کسی کو بلاوجہ اور بغیر عذر کے قائم کیے اس کو عذاب نہ دے۔ انسانی عقل اللہ تعالیٰ کے حقوق پوری طرح سمجھنے سے قاصر ہے، اگر عقل میں یہ کمی نہ ہوتی تو رسولوں کی بعثت سے حجت قائم کرنے کا سلسلہ موقوف نہ ہوتا۔ چنانچہ جو لوگ اسلام کے دعویدار ہیں ان کا اسلام اس وقت تک باقی ہے جب تک کہ ان سے کچھ ایسے جرائم سر زد نہ ہوں جن کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج ہوتے ہیں، اس کے لیے دلائل شرعی کی بنیاد پر فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح کسی شخص کو کافر کہنے کے متعلق انسان کو لاپرواہی سے کام نہیں لینا چاہیے کیونکہ اس سے دوزبردست نقصان پیدا ہونے کا خدشہ ہے: 1۔ کسی فیصلے میں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولاجاتا ہے۔ 2۔ جس شخص کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا ہے وہ کسی بھی ایسی صفت کاحامل نہیں۔ یعنی ایسے شخص کو کافر کہا جائے جو حقیقت میں کافر نہیں، گویا آدمی اس چیز کو حرام کہے جس کو اللہ نے حلال کیا ہے۔کیونکہ کسی کو کافر کہنا یامسلمان،اسی طرح ہیں جیسے انسان حلال کو حرام اور حرام کو حلال کہہ دے۔ دوسری بات اس میں یہ ہے کہ انسان اگر مسلمان کو کسی ایسی صفت کے ساتھ موصوف کرتا ہے جو اس میں نہیں،یعنی انسان اسے کافر کہے حالانکہ وہ سچا اور پکا مسلمان ہے تو کہنے والے کو اس بات سے خوف زدہ رہنا چاہئے کہ مبادا کفر کی نسبت خود اس کی طرف نہ ہو جائے! عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب کوئی آدمی اپنے بھائی کو کافر کہے گا تو ان دونوں میں سے کوئی ایک شخص یہ صفت لے کر جائے گا۔ ‘‘[1]
Flag Counter