Maktaba Wahhabi

124 - 153
امور میں جو شرک کے مسئلہ سے کہیں کمتر تھے، شریعت کی مخالفت ظاہر کی تو علمائے اسلام نے متفقہ طور پر ان کے کفر اور ان سے قتال کرنے کا فتویٰ دیا، ان کے شہروں کو دارالحرب قرار دیا اور مسلمانوں نے لڑائی کرکے وہ تمام اسلامی شہر آزاد کرا لیے جو ان کے زیرِ اقتدار تھے۔ ……………… شرح ………………… چوتھا جواب یہ لوگ اسلام کا دعویٰ رکھتے تھے اور ان صحابہ کرام کے شاگرد تھے لیکن اس کے باوجود ان کو کافر کہا گیا اور آگ جلا کر اس میں انہیں زندہ ہی جھونک دیا گیا۔ ان کا جرم یہ تھا کہ ’’علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بھی الٰہ اور معبود ہیں۔‘‘ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ صحابہ کرام نے ان لوگوں کو قتل کرنے پر کیسے اتفاق کیا؟ کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ کرام ایسے لوگوں کے قتل کرنے کو جائز سمجھیں جن کا قتل حرام ہو ؟اور ایسے افراد کو کافر کہیں جو حقیقت میں کافر نہ ہوں ؟یہ بات ناممکن ہے!! اگر صحابہ کرام کے علاوہ کسی کو الٰہ بنایا جائے تو کوئی حرج نہیں، لیکن علی رضی اللہ عنہ یا کسی صحابی یا کسی نبی یا کسی بزرگ ہستی کو معبود بنا یا جائے تو انسان کافر ہو سکتا ہے!! پانچواں جواب علماء کا اتفاق ہے کہ جس عبید القداح قبیلے نے مغرب اور مصر پر قبضہ کیا وہ کافر ہے۔ اگرچہ وہ لوگ اللہ کی وحدانیت کو تسلیم کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو مانتے ہیں، نماز کا اہتمام کرتے ہیں، جمعہ پڑھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں۔لیکن اس کے باوجود جو انہوں نے مسلمانوں کی مخالفت میں کافروں کی حمایت کی،شرک کے علاوہ بظاہر معمولی درجہ کے جرم کیے یعنی مسلمانوں کے خلاف جنگ کی اور مسلمانوں کے علاقے چھین کر کافروں کے حوالے کیے،یہ ان کے اسلام کو برقرار نہیں رکھتا اور ان کو کافر کہنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہتی۔
Flag Counter