Maktaba Wahhabi

53 - 153
جھوٹا ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے متعلق یہ نہ فرماتے کہ یہ نو مسلم یا نووارد ہے۔ ایسے کسی شخص کو کسی بات کی وجہ سے انکار کرنے پر کافر نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ پوری طرح اس کے سامنے دلیل اور حجت پیش نہ کر دی جائے۔بعض اوقات اس طرح بھی ہوتا ہے کہ کسی آدمی نے وہ مسائل اور وہ دلائل نہیں سنے ہوتے یا اگر سنے ہیں تو اس کے نزدیک وہ آثار ثابت نہیں ہوتے، اسی طرح یہ امکان بھی ہے کہ اس کے سامنے ان آثار کے بالمقابل کوئی ایسی صورت ہوتی ہے جو ان آثار کی بجائے کسی دوسرے مؤقف کو زیادہ واضح طورپر پیش کرتی ہے، اسی طرح کوئی ایسی صورت بھی ہو سکتی ہے کہ ان کی تاویل کی جا سکے۔ان تمام صورتوں میں اگرچہ انسان اپنے علم کے لحاظ سے،یا تاویل کے لحاظ سے، یا اسکے مقابل آثار پیش کرنے کے لحاظ سے غلطی بھی کر رہا ہو پھر بھی ایسی صورتحال کی بنا پر اس کوکافر نہیں کہا جا سکتا۔[1] شیخ الاسلام محمد بن عبدا لوہاب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جو آدمی دین اسلام کو پہچان لے اور سمجھنے کے بعد اس کو برا کہے، لوگوں کو اس سے روکے اور مسلمانوں سے دشمنی رکھے ہم ایسے شخص کو کافر کہتے ہیں۔‘‘ دوسری جگہ فرماتے ہیں: ’’ہمارے اوپر یہ بہتان اور جھوٹ لگایا جاتا ہے کہ ’’ہم تمام لوگوں کو کافر کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جو شخص اپنے دین کا پوری طرح اظہار نہیں کر سکتا اس پر ہماری طرف ہجرت کرنا لازم ہے۔‘‘ یہ سب جھوٹ اور بہتان پر مبنی ہے۔ ایسے فریب دے کر لوگوں کو اللہ اور اس کے دین سے روکنا چاہتے ہیں۔‘‘[2] جب یہ بات مسلّم ہے کہ ہم گمراہ لوگوں کو ان کی لاعلمی اور جہالت کی وجہ سے نیز قبروں اور بتوں کی پرستش کی وجہ سے بھی کسی کو کافر نہیں کہتے کیوںکہ ان کو سمجھانے والا کوئی نہیں تو پھر ہم ان لوگوں کو کیسے کافر کہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتے لیکن وہ صرف اپنے ملکوں کو چھوڑ کر خطۂ عرب کی طرف ہجرت نہ کرتے ہوں۔
Flag Counter