Maktaba Wahhabi

41 - 153
……………… شرح ………………… دنیاوی معبودوں کی حقیقت مشرکین مکہ لاالہ الا اللہ سے خالق، رازق یا مالک مرادنہیں لیتے تھے بلکہ وہ اس کلمہ طیبہ کا مفہوم و ہی سمجھتے تھے جو درحقیقت مراد ہے،یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کا حق دار نہیں۔ ان کے بالمقابل آج کے مسلمان لا الہ الا اللہ کا معنی و مفہوم ہی نہیں سمجھتے بلکہ وہ لوگ صرف اس جملے کو زبانی ادا کرتے ہیں لیکن اس عقیدہ اور اس کے تقاضوں کو نہیں جانتے۔ اور کہتے ہیں ہم ان بزرگوں اور صالحین کے مزاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ ان کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کریں، ہم انہیں خالق و رازق بالکل نہیں سمجھتے۔ کچھ لوگ ا سکا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار ہے یعنی خالق اللہ ہے، رازق اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔ اور کچھ لوگ اس کی تفسیر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ ہر قسم کی چیزوں سے یقین نکال کے صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہر طرح کا یقین رکھنا ہے۔ لا الہ الا اللہ کی یہ ایسی بے کار تفسیر ہے جو سلف صالحین میں سے کسی نے ذکر نہیں کی۔ ’’اللہ تعالیٰ پر یقینِ کامل رکھا جائے اور اللہ کے سوا ہر چیز سے یقین اٹھا لیاجائے ‘‘یہ اس لیے بھی غلط ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ دوسری چیزوں پر بھی یقین رکھنا ایمان کے تقاضوں میں سے ہے، فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿لَتَرَوُنَّ الْجَحِیْمَO ثُمَّ لَتَرَوُنَّہَا عَیْنَ الْیَقِیْنِ﴾(التکاثر:6،7) ’’تم ضرور جہنم کو دیکھو گے۔ پھر یقین کی آنکھوں سے تم اس کو دیکھو گے۔ ‘‘ اسی طرح ان چیزوں میں بھی یقین کیا جاتا ہے جو واضح نظر آرہی ہوں لیکن ان باتوں سے توحید میں کوئی خلل نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ لا الہ الا اللہ کی تفسیر اس طرح کرتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، یہ بھی غلط ہے، کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے سوا اور چیزوں کی بھی عبادت کی جاتی ہے۔
Flag Counter