Maktaba Wahhabi

72 - 402
ہے۔ یہ آندھی کی طرح تیز ، بادل جیسا سریع الحرکت ،اور برق آسمانی کی طرح بغیر کسی چیز کا لحاظ کیے کٹنے والا ہے۔ اتنا فرق ضرور ہے کہ خوشی کے دن جلدی گزرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، اور پریشانی کے لیل و نہار اس قدر لمبے ہو جاتے ہیں کہ انسان ایک بوجھ سا محسوس کرنے لگتا ہے۔ مناسب ہوگا کہ یہاں پر آئن سٹائن کا نظریہ اور وقت کے متعلق( مغربی ممالک کی تحقیق کا خلاصہ) جو عوام میں مشہور ہے بیان کردیا جائے۔ وہ کہتا ہے : ’’ وقت اضافت اور نسبت کے ساتھ ساتھ یہ بھی رشتے داروں کی طرح ہے۔ جس طرح عزیز اور رشتے دار اچھے وقت کے ساتھی ہوتے ہیں ، اور برے وقتوں میں پوچھتے تک نہیں ، اسی طرح وقت کا بھی خاصہ یہی ہے کہ اچھے دن پر لگا کر اڑ جاتے ہیں ، اور برا وقت ہمیشہ کے لیے آپ کے دل ودماغ سے چپک کر رہ جاتا ہے۔‘‘ وقت کی رفتار اس بنیاد پر کم وبیش ہوتی ہے کہ کسی چیز کاکسی دوسری چیز سے باہمی تعلق کیا ہے ؟ جیسے جیسے یہ تعلق قربت یا دوری کے حصار میں جاتا ہے ، وقت اتنی تیزی یا سست روی سے گزرنے لگتا ہے۔ وقت کے حوالے سے ایک مبصر نے اوپیرا شو کے متعلق تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:’’ دو گھنٹوں کے بعد جب میں نے گھڑی دیکھی تو پتہ چلا کہ سترہ منٹ گزر چکے ہیں ۔‘‘ اضافتِ وقت کے اس نظریہ کی بنیادپر یہ بات ماننی پڑتی ہے کہ چلتی ہوئی گھڑی بند گھڑی سے زیادہ سست رفتار ہوتی ہے۔ آئن سٹائن نے اسے انبساطِ وقت کا نام دیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ وقت اپنی اضافت کی وجہ سے کم ہوتا اوربڑھتا ہے۔ اگرچہ آئن سٹائن کو اس نظریہ کا موجد یا بانی کہا جاتا ہے ،تاہم یہ بات کہنا سرے سے درست نہیں ہے۔ کیونکہ یہ نظریہ آئن سٹائن سے قبل مسلم علماء اور عرب مشاہیر کے ہاں بھی مسلمہ تھا کہ یہ سب اس انسان کا شعور و وجدان ہے جو ان حالات سے گزر رہا ہے ، اور اس کے متعلق اپنے اندر حاصل ہونے والا عکس بیان کررہا ہے ؛حقیقت میں اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔ شاعر کہتا ہے :
Flag Counter