یعنی اس سے قبل کہ تم بڑے آدمی بنو، اور لوگوں کی نظریں تم پرلگیں ، اور تمہیں اس بات سے حیاء آنے لگے کہ اب تم کسی سے تعلیم حاصل کرو؛ یا کسی کو اپنا استاذ بناؤ۔ اورانانیت اور تکبر کی وجہ سے پھر اس وجہ سے جاہل کے جاہل ہی رہ جاؤ ۔‘‘ [1]
اسلام کی خصوصیت ہے کہ یہ ربانی دین ہے۔ جس کا معنی ہے: اللہ کی طرف سے نازل شدہ ۔ سو کتاب اللہ جو آسمانوں سے نازل ہوئی ہے ، وہ اللہ کی طرف سے ہونے کی وجہ سے بھی ربانی ہے ، اور جو اس کتاب کی تدریس وتعلیم میں مشغول ہیں وہ بھی منشاء الٰہی کے مطابق، اس کے احکامات، اور مقاصد کو سمجھنے کے لیے اپنی کوششیں صرف کرنے کی وجہ سے ربانی ہیں ۔ آسان الفاظ میں ربانی کا معنی ہے : اللہ والا، جس کا تعلق اللہ سے ہو اور مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول ہو۔ اور یہ انعام وشرف راہِ علم میں ہی ملتا ہے؛ ارشادالٰہی ہے:
﴿ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ ﴿٧٩﴾ (آل عمران:۷۹)
’’ تم سارے اللہ والے بن جاؤ ، بسبب اس کتاب کے سیکھنے کے اور سکھانے کے۔ ‘‘
کہتے ہیں دل کی زندگی چار چیزوں میں ہے: علم، تقویٰ ، اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کا ذکر۔اور دل کی موت چار چیزوں میں ہے: جہالت، اللہ کی نافرمانی، دھوکہ کھا جانا ؛ اور غفلت۔
علم سیکھنے کا ثواب :
کسی بھی چیز کی پختگی او رعمدگی اس کی بنیاد پر منحصر ہے۔ اعمال صالح کی بنیاداخلاص کے بعد علم نافع پر ہے۔ علم جتنا زیادہ اور پختہ ہوگا اس کافائدہ بھی اتناہی زیادہ اور عام ہوگا۔ حتی کہ انسان کے علم کی وجہ سے چرند پرند اور دیگر مخلوقات کو جو فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اس پر وہ بھی اس عالم کے لیے دعا گو رہتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
|