Maktaba Wahhabi

55 - 402
آخرت کے لیے توشہ بنالیا۔ یہ سب وہ محرکات ہیں جن کی وجہ سے راقم آثم کو یہ سطور قلم بند کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ نالہ ٔدل اللہ تعالی نے ہی یہ خلقت پیدا کی اور اس کے لیے اجل بھی مقرر کی، اور تقدیر لکھ دی گئی۔ دن اوررات پے در پے گزرتے چلے جارہے ہیں ۔ کچھ نئی روحیں اس دنیامیں آرہی ہیں ، اور کچھ روحیں اپنی مدت ختم کرکے اپنے خالق کے پاس جارہی ہیں ۔ زندگی کی گاڑی اپنے فطری اور متعین اصولوں کے مطابق رواں دواں ہے۔ ایک چہل پہل ہے ، جس میں خوش بخت اور بد بخت، نافرمان اور فرمانبردار ، مومن اور کافر، اللہ کو ماننے اور نہ ماننے والے ہر قسم کے لوگ ہیں ۔ کسی کی تمنا تو یہ ہے کہ یہ دن اور گھڑیاں اور لمبی ہوجائیں تاکہ وہ اس خوشی اور نعمت سے اور زیادہ مستفید ہو جس میں وہ اپنا وقت گزار رہا ہے۔ دوسرا انسان اس دن اور رات کے ختم ہونے کی تمنا کرتا ہے تاکہ اسے ان غموں اور پریشانیوں سے نجات حاصل ہو جائے جن کاوہ سامنا کررہا ہے۔ اور اس سب کچھ میں ایک عاقل کے لیے مکمل عبرت اور نصیحت اور غافل کے لیے بیداری کا سامان موجود ہے۔ ایام زندگی لپیٹے جارہے ہیں ، عمر ہر لمحہ اپنے اختتام کے قریب تر ہو رہی ہے۔ گردشِ شب وروز اس چیز کو ہمارے قریب تر کررہی ہے جسے ہم دور سمجھ رہے ہیں ،فرمان الٰہی ہے: ﴿إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيدًا ‎﴿٦﴾‏ وَنَرَاهُ قَرِيبًا ‎﴿٧﴾ (المعارج :۶-۷) ’’وہ جس چیز کو بہت دور جانتے ہیں ، ہم اسے بہت قریب دیکھ رہے ہیں ۔ ‘‘ لیل و نہار کی اس برق رفتاری اور گردشِ ایام کی طوفان خیزی ایسی ہے کہ اس پر قابوپانا ، اور اس سے فائدہ اٹھانا اگرچہ ہر کس و ناکس کی خواہش بھی ہے ، اورامید بھی ؛ مگر ہر کسی کا کام نہیں ؛ سوائے ان لوگوں کے جن کو اللہ تعالیٰ اس بات کا شعور اور سمجھ دیدے۔اسی لیے اللہ تعالی نے قرآن میں جا بجا وقت کی قسمیں کھا کر اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے ، فرمایا:
Flag Counter