سرمایہ ہر انسان کو برابر ملتا ہے ۔ اور روزانہ ملتا ہے۔ مگر اس کی قدر کی معرفت کے حساب سے لوگ اس سے مستفید ہوسکتے ہیں ۔
وقت ایک ایسی نعمت ہے جو کسی سے چھینی نہیں جاسکتی ۔ اور نہ ہی یہ نعمت چرانے کے لائق ہے ۔ اورنہ ہی اس کے ملنے میں کسی پر کوئی مقام و منصب کے لحاظ سے کمی بیشی ہوتی ہے ۔ وقت نہ ہی خریدا جاسکتا ہے اور نہ ہی بیچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک سیال دولت ہے ، اور بہت ہوا دریا جو کہ ہر وقت رواں دواں ہے ۔جس کی حرکت کے تسلسل میں کبھی کوئی کمی نہیں آتی ۔ بس اتنا فرق ضرور ہے جو اس کی قدر جان لیتے ہیں ، وہ اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، اور جو اس کی ناقدری کرتے ہیں ، وہ ویسے کے ویسے ہی رہ جاتے ہیں ، اور حسرت و یاس ان کا مقدر بن کر رہ جاتی ہے :
قدرِ زر زر گر شناسد قدرِ جوھر جوھری
وقت اور دولت :
وقت اور دولت میں جو فرق ہے ، اس کی مثال ایسے ہے جیسے ایک ہی سائز کی دو ٹنکیاں پانی سے بھری ہوئی ہوں ۔ایک ٹنکی میں ٹونٹی لگی ہو؛ آپ اسے حسب ضرورت کھول سکتے ہیں ؛ اور جب چاہیں استعمال کر سکتے ہیں ۔ جب کہ دوسری ٹنکی میں ٹونٹی نہیں ہے ؛ مگر اس کے پیندے میں ایک سوراخ ہے ۔ آپ اس سوراخ کو بند بھی نہیں کرسکتے ۔ دونوں ٹنکیاں ہمیں استعمال کے لیے دی جائیں ، تو ہم غیر ارادی طور پر دوسری ٹنکی کے پانی کو پہلے استعمال کرنے کی کوشش کریں گے جبکہ دوسری ٹنکی کی ٹونٹی کو بند کردیں گے۔
دولت پہلی ٹنکی کی مانند ہے ، اوروقت دوسری ٹنکی کی مانند ۔ جس انداز سے دوسری ٹنکی سے پانی بہہ رہا ہے ؛اور اسے روکنا ( فرض کیاوسائل موجود نہیں ہیں ) ہمارے اختیار میں نہیں ہے ۔ اس طرح یہ وقت بھی ہر لمحہ گزر رہا ہے ، ہماری پچھلی سانس اور جو یہ سانس جو ہم لے رہے ہیں ، اس دوران بھی جو کچھ وقت گزر چکاہے ۔ موت کے مسافر کے لیے ضروری ہے کہ
|