Maktaba Wahhabi

46 - 98
6 وہ لکھ دینا جو پڑھا نہ جائے اور پڑھ جانا جو لکھا نہ جائے۔ 7 صاحبِ کتاب کا ذاتی مسلک۔ 8 کتاب کو نقل کرنے میں کوئی خامی یا بدخطی۔ 9 بعض عبارتوں کو الگ الگ پڑھنے کے بجائے ملا کر پڑھ جانا۔ 10 تعلیم کے اصول و مبادی سے ناآشنائی۔ 11 جس فن پر کتاب لکھی گئی ہو اس کی اصطلاحات سے بے خبری۔ 12 وہ یونانی الفاظ جنھیں کتاب نقل کرنے والا لغت سے نکال نہ سکتا ہو، جیسے نوروز۔ یہ سب چیزیں حصولِ علم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے والا ان تکلفات سے بچ جاتا ہے۔ اگر صورتِ حال یہ ہے تو پھر انسان کے اپنے آپ پڑھنے کے بجائے استاد سے پڑھنا زیادہ مفید اور افضل ہے۔ علامہ صفدی کہتے ہیں کہ اسی لیے علما نے کہا ہے کہ کسی صحفی یا مصحفی (کتابی بندے) سے اکتسابِ علم نہ کرو۔ یعنی اس سے قرآن نہ پڑھو، جس نے قرآن بغیر استاد کے پڑھا ہو اور نہ اس سے حدیث پڑھو جس نے صرف کتب کی ورق گردانی سے علمِ حدیث حاصل کیا ہو۔[1] علی بن رضوان کے اس نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لیے ٹھوس دلیل یہ ہے کہ اختلافِ زمان و مکان اور علوم و معارف کی بو قلمونی کے باوجود ہزاروں سوانح عمریاں اور حالاتِ زندگی پر لکھی گئی کتابیں شیوخ اور تلامذہ کے ذکر سے بھری پڑی ہیں، جن کی تعداد بلاشبہہ ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ امام ابو حیان محمد یوسف اندلسی (وفات: ۷۴۵ھ) کے پاس جب ابن مالک کا
Flag Counter