’’امانت و دیانت دین کا حصہ ہے، جب کہ حفظ و ضبط مہارتِ فن کا۔ پس حافظِ حدیث کے لیے ضروری ہے کہ وہ متقی ہو، زود فہم ہو، نحوی ہو، عالمِ لغت ہو، پاکیزہ کردار، حیا دار اور سلفی ہو اور یہ کہ وہ اپنے ہاتھ سے دو سو مجلدات لکھ سکتا ہو۔ قابلِ اعتبار مجموعہ ہائے کتب سے پانچ سو مجلدات جمع ( Collect ) کر سکتا ہو۔ موت تک سچی نیت اور تواضع کے ساتھ علم حاصل کرنے سے اکتاہٹ محسوس نہ کرے۔ اگر یہ نہیں تو پھر وہ اس محنتِ شاقہ سے باز رہے۔‘‘ یہ قدم قدم بلائیں، یہ سوادِ کوئے جاناں وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہو پیاری 17. اساتذہ سے حصولِ علم: طلبِ علم کا اصل طریقہ یہ ہے کہ وہ استادوں کی تعلیم و تلقین کے ذریعے سے ہو اور طالب علم سچے اور حقیقی طلبِ علم کے جذبے سے اپنے استادوں کے ساتھ رہے اور ان کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں سے علم اخذ کرے، نہ کہ محض رسائل اور کتابوں کے اندر سے۔ پہلی صورت نسبتِ ناطق سے اکتساب کی ہے، جس سے مراد استاد ہے۔ دوسری کتاب سے اکتساب کی صورت ہے جو از قسمِ جمادات ہے، وہاں نسب کا رشتہ کیسے قائم ہو سکتا ہے؟! مقولہ ہے کہ جو شخص میدانِ علم میں تنہا آیا وہ تنہا ہی نکل گیا۔[1] یعنی جو کوئی استاد کے بغیر طلبِ علم کے لیے نکلا وہ بے علم رہ گیا، اس لیے کہ علم ایک فن ہے اور ہر فن کسی ماہرِ فن کا محتاج ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ اس فن کو سیکھنے کے لیے کسی ماہرِ فن |
Book Name | زیور علم اور مثالی طالب علم کے اخلاق و اوصاف |
Writer | علامہ بکر بن عبد اللہ ابو زید رحمہ اللہ |
Publisher | دار ابی الطیب |
Publish Year | |
Translator | فضیلۃ الشیخ عبد اللہ کوثر حفظہ اللہ |
Volume | |
Number of Pages | 98 |
Introduction |