Maktaba Wahhabi

53 - 98
جائے۔ جب کوئی حدیث بیان کرنے والا سامع کی طرف سے ذرا سی بھی سستی اور بے توجہی دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ خاموش ہو جائے۔ کسی ادیب نے کہا ہے کہ گفتگو کرنے والے کا زورِ بیان سامع کے فہم کے ساتھ چلتا ہے۔[1] پھر انھوں نے زید بن وہب سے یہ قول بیان کیا ہے کہ عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’لوگوں سے اس وقت تک گفتگو کرو جب تک وہ اپنی نگاہیں تم پر گاڑھے رکھیں، جب اُن کی طرف سے ذرا بھی سستی یا تغافل دیکھو تو رک جاؤ۔‘‘ 21. استاد کے فرمودات لکھنا: اس سلسلے میں اساتذہ کا رویہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے، اسے سمجھنے کی کوشش کریں، اس کام میں ایک ادب اور ایک شرط ملحوظِ خاطر رہے۔ ادب یہ ہے کہ آپ اپنے استاد کو بتا دیں کہ آپ اس کے ملفوظات لکھ رہے ہیں، یا دورانِ مذاکرہ جو آپ نے سنا تھا، اُسے قلم بند کر لیا ہے۔ رہی شرط تو وہ یہ ہے کہ (پھر جہاں کہیں بھی اسے بیان کرنے کا موقع ہو) آپ بتا دیں کہ میں نے یہ فلاں استاد کے درس سے نوٹ کیا تھا۔ 22. بدعتی سے علم حاصل کرنا: اس سراپائے جہالت بدعتی سے بچو جو عقیدے کی کجی کا مارا ہوا ہو اور اس پر خرافات کے بادل چھائے ہوئے ہوں۔ جو تابع ہو خواہشِ نفس کا مگر اسے نام دیتا ہو عقل کا اور نص صریح (قرآن مجید کی آیت یا صحیح حدیث شریف) سے ہٹ کر بات کرتا ہو۔ کیا نصِ صریح کے سوا بھی کسی بات کو حتمی طور پر عقل کہا جا سکتا ہے؟! جو ضعیف روایات کا دلدادہ ہو اور صحیح روایات سے دور کرنے والا ہو۔ ایسے لوگوں کو
Flag Counter