Maktaba Wahhabi

47 - 98
ذکر کیا گیا تو انھوں نے پوچھا: اس کے شیوخ کہاں ہیں؟[1] ابو ولید کہتا ہے کہ امام اوزاعی فرمایا کرتے تھے: یہ علم معزز اور قابلِ قدر تھا، جسے لوگ آپس میں پڑھتے پڑھاتے تھے، پھر جب یہ کتابوں میں داخل ہوا تو اس میں ایسے لوگوں کا بھی عمل دخل شروع ہو گیا جو علم کے اہل نہیں تھے۔[2] یہی بات امام عبداﷲ بن مبارک نے امام اوزاعی سے بھی نقل کی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ صحیفوں یا کسی صاحبِ علم و فن کی اجازت سے بعض کتابوں سے اکتسابِ علم کیا جائے تو اس میں کسی نہ کسی خلل کا امکان ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس زمانے میں جب کہ ابھی الفاظ کے حروف و نقاط کی شکل متعین نہیں ہوئی تھی اور کسی کلمے کے غلط پڑھ جانے کے سبب اس کے معنی بدل جاتے تھے، جبکہ اساتذہ کی زبان سے اخذِ علم کیا جائے تو ایسا نہیں ہوتا۔ اسی طرح اگر حافظے کی مدد سے کوئی حدیث بیان کی جائے تو اس میں کسی تحریر شدہ کتاب سے روایت کے برعکس وہم کا امکان ہو گا۔ امام ابن خلدون نے اپنے ’’المقدمۃ‘‘ میں اس موضوع پر بڑی عمدہ بحث کی ہے۔ کسی شاعر نے کہا ہے: وَمَنْ لَمْ یُشَافِہْ عَالِماً بِأُصُوْلِہٖ فَیَقِیْنُہ فِيْ الْمُشْکِلَاتِ ظُنُوْنٌ ’’جو کسی ماہرِ فن عالم کے سامنے بیٹھ کر علم حاصل نہیں کرے گا، مشکلات میں اس کا یقین بھی گمان ہی ہو گا۔‘‘
Flag Counter