Maktaba Wahhabi

68 - 98
کیے ہوئے ذخیرۂ علم کے آگے لکھیں ’’منقول‘‘ تاکہ وہ غیر منقول سے خلط ملط نہ ہو، جیسا کہ آپ کوئی کتاب پڑھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ فلاں صفحے تک پڑھا، تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ جسے آپ نے پڑھا نہیں اس سے خلط ملط ہو کر پڑھے جانے سے رہ جائے۔ اس موضوع پر علما کی بہت سی کتابیں ہیں، مثلاً: ابن القیم رحمہ اللہ کی بدائع الفوائد، زرکشی کی خبایا الزوایا، نیز کتاب الاغفال اور بقایا الخبایا وغیرہ۔ لہٰذا علم کو ضبطِ تحریر میں لا کر محفوظ کر لیں،[1] خاص کر وہ انوکھے فوائد جو ان مقامات سے مل رہے ہوں جہاں سے ان کے ملنے کا گمان بھی نہ ہو اور کتابوں کے ان پوشیدہ کونوں میں پڑے ہوئے اور مختلف کتابوں یا رسائل وغیرہ میں بکھرے ہوئے وہ موتی جنھیں آپ دیکھیں یا جن کے متعلق آپ سنیں اور ان کے ضائع ہو جانے کا خدشہ ہو، کیوں کہ حافظہ کمزور ہو جاتا ہے اور انسان کو نسیان لاحق ہو جاتا ہے۔ امام شعبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’جب آپ کوئی بات (علمی یا ادبی نکتہ) سنیں تو اسے لکھ لیں، خواہ دیوار پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘ جب آپ کے پاس اتنا علم، جتنا کہ اﷲ تعالیٰ نے چاہا، جمع ہو جائے تو اسے موضوعات کے اعتبار سے مرتب کر کے کسی نوٹ بک میں لکھ لیں۔ یہ مجموعۂ معلومات آپ کے لیے اُن مشکل اوقات میں ممد و معاون ہو گا جن میں بہت سے مستند علما کسی موضوع پر معلومات کے حصول میں درماندہ رہ جاتے ہیں۔ 28. عمل کے ذریعے علم کی حفاظت: عمل و اتباع کے ذریعے علم کی حفاظت کے لیے انتہائی کوشش کریں۔ خطیب
Flag Counter