Maktaba Wahhabi

45 - 98
یعنی استاد سے رابطہ کیا جائے۔ جملہ اہلِ علم کا اس بات پر تقریباً اتفاق ہے۔ سوائے اس کے جس نے اس سے ہٹ کر کوئی راہ اختیار کی، جیسے کہ ایک مصری طبیب علی بن رضوان (وفات: ۴۵۳ھ)۔ اس وقت کے علما اور بعد میں آنے والے علما نے اس کی تردید کی ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے علی بن رضوان مصری کے حالاتِ زندگی میں لکھا ہے کہ اس کا کوئی استاد نہیں تھا، وہ عمر بھر کتابوں سے معلومات اخذ کرنے میں مشغول رہا، اس نے فن کو کتابوں سے حاصل کرنے پر ایک کتاب تصنیف کی ہے اور کہا ہے کہ یہ طریقہ استادوں سے حصولِ علم کے مقابلے میں زیادہ مناسب ہے۔ ابن رضوان کا یہ کہنا غلط ہے۔[1] صفدی نے الوافی میں اور زبیدی نے شرح الاحیاء میں متعدد علما سے دلائل کے ساتھ ابن رضوان کے نظریے کی تردید کی ہے۔ ابن بطلان فرماتے ہیں کہ کتاب میں کچھ ایسی چیزیں ہو سکتی ہیں جو حصولِ علم میں سدِ راہ ہو جائیں جو استاد سے استفادے کی صورت میں ناپید ہیں، مثلاً: کسی کتاب کی عبارت کو پڑھنے میں غلطی کر جانا جن کی مندرجہ ذیل وجوہ ہو سکتی ہیں: 1 حروف کے اشتباہ سے پیدا ہونے والی لفظی غلطی۔ 2 نظر کے پھسل جانے سے ہونے والی غلطی۔ 3 اعراب سے کم آگہی۔ 4 کتاب میں کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہو۔ 5 عبارت کی تصحیح میں غلطی۔
Flag Counter