Maktaba Wahhabi

54 - 105
غَیْرِ تَخْصِیْصٍ بِبَعْضٍ دُوْنَ بَعْضٍ أَيْ أَیُّمَا امْرَأَۃٍ زَوَّجَتْ نَفْسَہَا۔‘‘[1] [’’بلا تخصیص (سب) عورتوں سے ولایت (نکاح) سلب کرنے کے لیے (أَیُّمَا) عموم کے الفاظ میں سے ہے (اور) معنی یہ ہے، کہ جس کسی عورت نے بھی اپنا نکاح خود کیا۔] مقصود یہ ہے، کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان کردہ یہ حکم سب عورتوں کے لیے ہے ، خواہ وہ دیہاتی ہوں، یا شہری، ان پڑھ ہوں یا تعلیم یافتہ، تنگ دست ہوں یا مال دار، دو شیزہ ہوں یا بیوہ۔ ب: کسی چیز کے باطل ہونے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں ایک دفعہ [باطل] فرمانا کافی ہے، جبکہ ایسے نکاح کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ [باطل] فرمایا، تاکہ یقینی طور پر اس کا بطلان اور اس کی برائی کی سنگینی واضح ہوجائے۔ [2] واللہ تعالیٰ أعلم۔ نکاح میں ولی کا موجودگی کی شرط کے متعلق شیخ الإسلام ابن تیمیہ لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم کے ایک سے زیادہ مقام اور اسی طرح سنت کے ایک زیادہ مقام اس پر دلالت کرتے ہیں۔ اور یہی حضرات صحابہ کرام کا طریقہ تھا۔ اس زمانے میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی، کہ کسی عورت نے اپنی شادی خود کی ہو۔ اور یہی تو وہ بات ہے، جو کہ نکاح اور پوشیدہ یار بنانے میںحدِ فاصل کھینچتی ہے۔ اسی لیے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’عورت اپنی شادی خود نہیں کرتی، یقینا بدکار عورت ہی اپنی شادی خود کرتی ہے۔[3]
Flag Counter