Maktaba Wahhabi

220 - 227
تبصرہ: ایسے قرض کی حالت گزشتہ سب سالوں میں یکساں نہ تھی۔ جس سال میں وہ قرض وصول ہوا، اس میں وہ قرض دینے والے کے اثاثہ میں شامل ہوگیا۔اس سے پہلے سالوں میں، تو وہ اس کے اثاثہ میں شامل نہ تھا۔ اسی فرق کی بنا پر گزشتہ سالوں میں سے صرف قرض کی وصولی والے سال زکوٰۃ کے وجوب والی بات زیادہ درست نظر آتی ہے۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اور حضرات ائمہ حسن، لیث، اوزاعی، مالک اور ایک روایت کے مطابق امام شافعی کی یہی رائے ہے۔ [1] گفتگو کا خلاصہ یہ ہے، کہ قرض دینے والے پر دئے ہوئے قرض کی زکوٰۃ کے واجب ہونے کے بارے میں علمائے اُمت کی مختلف آراء ہیں۔ اور شاید ان میں سے راجح بات یہ ہے، کہ: ۱: اگر مقروض اپنے ذمہ قرض کا اعتراف کرے اور اس میں قرض کی واپسی کی استطاعت ہو، تو قرض دینے والا اس قرض کی دیگر مال کے ساتھ ملا کر، یا تنہا نصاب کو پہنچنے پر، ہر سال زکوٰۃ ادا کرے۔ ب: اگر قرض کسی نادار، یا قرض کے اپنے ذمہ ہونے سے انکار کرنے والے، یا ٹال مٹول کرنے والے شخص پر ہو، تو قرض دینے والا، اس قرض کی وصولی والے سال، صرف ایک سال کی زکوٰۃ ادا کرے۔ واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب۔
Flag Counter