Maktaba Wahhabi

210 - 227
۱: مقروض پر قرض واجب ہونے کی پہلی دلیل، کہ وہ نصاب کا مالک ہے، محل نظر ہے۔ اس کی نصاب کی ملکیت محض وقتی اور ظاہریہے، حقیقی نہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی کے پاس بقدر نصاب نقد یا مویشی یا غلہ یا کوئی اور چیز ہو، اور اس کے ذمہ قرض بھی ہو۔ اور جب ہم قرض کی رقم یا چیز کو اس کے پاس موجود چیز یا رقم سے منہا کر یں گے، تو وہ صاحب نصاب نہیں رہے گا۔ اور کسی شخص کی حقیقی حیثیت تو اس کے ذمہ واجبات نکالنے کے بعد ہی متعین ہوتی ہے۔ ۲: اموالِ ظاہرہ والے مقروض پر قرض کی زکوٰۃ کے دلائل کی اساس اموال کی دو قسموں میں تقسیم پر ہے۔ لیکن ان دونوں کے درمیان حد فاصل قائم کرنا کٹھن کام ہے، خصوصاً موجودہ دور میں اموالِ باطنہ میں شمار کیے گئے بعض اموال، اموالِ ظاہرہ سے کچھ کم عیاں نہیں۔ فیکٹریوں میں تیار کی ہوئی مصنوعات، دکانوں میں سجایا ہوا سامانِ تجارت اور منڈیوں میں جمع کی ہوئی تجارتی چیزیں کسی طور پر اموالِ ظاہرہ سے کم عیاں اور واضح نہیں۔ اس کے برعکس مقروض پر قرض کی زکوٰۃ نہ ہونے کے دلائل کافی زیادہ قوی ہیں۔ مقروض پر قرض کی زکوٰۃ نہ ہونے کے متعلق اقوال: اس مسئلہ کو مزید نکھارنے کی غرض سے ذیل میں توفیق الٰہی سے چند ایک علمائے امت کے اقوال ذکر کیے جارہے ہیں: ۱: امام مالک نے یزید بن خصیفہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انھوں نے سلیمان بن یسار سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا، کہ اس کے پاس مال ہے، اور اس کے بقدر اس پر زکوٰۃ ہے:
Flag Counter