Maktaba Wahhabi

116 - 227
کہ قرض خواہ کو اس کی ملامت اور مذمت کرنے اور ادائیگی میں بُرے ہونے کے ذکر کا حق حاصل ہے۔ ‘‘ علمائے حدیث کے مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں موجودہ دور میں شاید یہ بات بھی درست ہو، کہ تونگری کے باوجود قرض کی واپسی میں ٹال مٹول کرنے والے کی تشہیر جدید ذرائع ابلاغ(Media)میں کی جائے۔ اور ممکن ہے، کہ یہ تدبیر اس کو لیت و لعل کی بجائے ادائیگی پر آمادہ کرنے میں بہت موثر اور مفید ثابت ہو۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ ج:قید میں ڈالنا: ۱: مذکورہ بالا حدیث میں یہ بات بھی بیان کی گئی ہے، کہ دولت مند شخص کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اس کی سزا کو حلال کردیتا ہے۔ علمائے حدیث نے[سزا کو حلال کرنے]کی خوب شرح بیان کی ہے۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں ان میں سے چند ایک کے اقوال پیش کیے جارہے ہیں۔ ا: امام بیہقی نے امام سفیان سے نقل کیا ہے، کہ انہوں نے فرمایا: ’’ عُقُوْبَتُہُ أَنْ یُسْجَنَ۔ ‘‘[1] ’’ اس کی سزا یہ ہے، کہ اس کو قید میں بند کردیا جائے۔ ‘‘ ب: امام وکیع نے بیان کیا ہے، کہ:’’ عُقُوْبَتُہُ حَبْسُہُ۔‘‘ [2] ’’ اس کی سزا اس کو قید کرنا ہے۔ ‘‘ ج: امام عبداللہ بن المبارک فرماتے ہیں:’’ وَعُقُوْبَتُہُ یُحْبَسُ لَہُ۔ ‘‘[3] ’’ اس کی سزا یہ ہے، کہ اس کو قرض خواہ کے لیے قید کردیا جائے۔ ‘‘
Flag Counter