Maktaba Wahhabi

40 - 227
صورت میں لوگوں کے کہنے پر وہ قرض معاف کردیا جائے گا اور انھیں اس کے بدلے میں اپنی نیکیوں سے محروم ہونا پڑے گا۔ اور آج کے اہل اقتدار اور ان کے ہم نوا لوگ سرکاری خزانے سے کروڑوںکا قرض لیتے ہیں اور پھر اقتدار کے زور پر یا بوقت ضرورت سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے قرض معاف کروالیتے ہیں۔ إِنا للّٰه وإِنا الیہ راجعون۔ ب:قرض کے ناپسندیدہ ہونے کے متعلق روایات: قرض کے جواز کے متعلق متعدد احادیث کے ساتھ ساتھ ایسی احادیث اور آثار بھی ملتے ہیں، جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے، کہ عام حالات میں قرض لینا پسندیدہ کام نہیں۔ توفیق الٰہی سے ذیل میں اس بارے میں پانچ روایات پیش کی جارہی ہیں: ۱: امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم کَانَ یَدْعُوْفِيْ صَلَاتِہِ، وَیَقُوْلُ: ’’ أَللّٰھُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ۔‘‘ [بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز میں دعا کیا کرتے تھے اور کہتے تھے: ’’ اے اللہ!یقینا میں گناہ اور قرض سے آپ کی پناہ طلب کرتا ہوں۔ ‘‘] کسی کہنے والے نے عرض کیا: ’’ مَا أَکْثَرَ مَا تَسْتَعِیْذُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مِنَ الْمَغْرَمِ؟ ‘‘ [’’ اے اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم!آپ قرض سے کس قدر زیادہ پناہ طلب کرتے ہیں؟ ‘‘] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا غَرِمَ حَدَّثَ، فَکَذَبَ، وَوَعَدَ، فَأَخْلَفَ ‘‘[1]
Flag Counter