Maktaba Wahhabi

203 - 227
میں آسانی کے لیے ہو، یا قرض دینے والے کو رشوت دینے کی غرض سے ہو، یا قرض دینے والے کو قرض دینے کے عوض کچھ فائدہ پہنچانے کی خاطر ہو، تو ایسا کرنا حرام ہے، کیونکہ یہ سود کی قسم ہے یا رشوت ہے۔(اور وہ دونوں ہی حرام ہیں۔) اور اگر یہ صورتیں ادھار لینے اور دینے والے کے درمیان پہلے سے موجود ہوں، تو پھر کچھ مضائقہ نہیں۔ اور اگر ایسی صورتیں اختیار کرنے کا کوئی مقصد بھی نہ ہو، تو ظاہر بات یہی ہے، کہ یہ حرام ہیں، کیونکہ اس بارے میں ممانعت مطلق ہے۔ ‘‘ (۷) مقروض سے خدمت یا مہمانی لینا اس بارے میں علامہ ابن قدامہ نے امام ابن ابی موسیٰ سے نقل کیا ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ وَلَوْ أَقْرَضَہُ قَرْضًا، ثُمَّ اسْتَعْمَلَہُ عَمَلًا، لَمْ یَکُنْ لِیَسْتَعْمِلَہُ مِثْلَہُ قَبْلَ الْقَرْضِ، کَانَ قَرْضًا جَرَّ مَنْفَعَۃً۔ وَلَوِ اسْتَضَافَ غَرِیْمَہُ، وَلَمْ تَکُنِ الْعَادَۃُ جَرَتْ بَیْنَھُمَا بِذٰلِکَ، حُسِبَ لَہُ مَا أَکَلَہُ۔ ‘‘[1] ’’ اور اگر اس نے دوسرے شخص کو قرض دیا، پھر اس سے کوئی ایسا کام لیا،
Flag Counter