Maktaba Wahhabi

215 - 227
دلیل: اس قول کی دلیل یہ ہے، کہ قرض دئے جانے کی وجہ سے قرض خواہ کے لیے اس مال میں کچھ اضافہ نہیں ہورہا، اس لیے قرض میں دیا ہوا مال غیر تجارتی سامان کی مانند ہے، [1] جس پر زکوٰۃ نہیں۔ تبصرہ: مال کی زکوٰۃ ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ فرض ہے، قرض دینا عام حالات میں مستحب ہے۔ قرض دینے والا رضاکارانہ طور پر قرض دے کر اپنے مال کے اضافہ کو روکتا ہے۔ ایک مستحب کام کی بنا پر فرض کیسے ساقط ہوسکتا ہے؟قرض دینے والے کا قرض کی بنا پر ثواب کی خاطر اپنے مال میں اضافہ کو روکنا، خود اس کا اپنا انتخاب ہے، اگر وہ مال میں اضافہ کے رکنے کو برداشت نہیں کر سکتا، تو قرض ہی نہ دے، لیکن زکوٰۃ جو فرض ہے، اس کو تو نہ چھوڑے۔ مزید برآں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے قرض دینے والے کے مال سے زکوٰۃ کی ادائیگی منقول ہے۔ امام ابن حزم نے نافع کے حوالے سے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ: ’’ أَنَّہُ وَلِيَ مَالَ یَتِیْمٍ، فَکَانَ یَسْتَسْلِفُ مِنْہُ، یَرَی أَنَّ ذٰلِکَ أَحَرَزُ لَہُ، وَیُؤْدِيْ زَکَاتَہُ مِنْ مَال یَتِیْمٍ۔ ‘‘[2] ’’ بلاشبہ وہ یتیم کے مال کے نگہبان بنے، تو وہ اس کے مال میں سے بطورِ قرضہ لیا کرتے تھے، کیونکہ وہ ان کی نظر میں اس کے مال کی زیادہ حفاظت والی شکل تھی اور وہ اس کی زکوٰۃ یتیم کے مال ہی سے نکالتے تھے۔ ‘‘
Flag Counter