Maktaba Wahhabi

219 - 227
والے، یا ٹال مٹول کرنے والے کے ذمہ ہو۔ ایسے قرض کی زکوٰۃ کے متعلق دو آراء ہیں:ایک یہ کہ اس پر زکوٰۃ واجب نہیں۔ یہ رائے حضراتِ ائمہ قتادہ، اسحاق، ابو ثور اور اہل عراق کی ہے۔ دلیل: اس قرض سے مستفید ہونا قرض دینے والے کے دائرہ استطاعت سے باہر ہے۔ تبصرہ: کیا یہ قرض، قرض دینے والے کو واپس ملا ہے، یا نہیں؟ اگر نہیں ملا، تو واقعتہً اس سے استفادہ اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ لیکن اگر یہ قرض واپس مل گیا ہے، تو وصولی والے سال اس سے استفادہ قرض خواہ کے بس میں تھا۔ لہٰذا اس سال کا حکم گزشتہ سالوں سے مختلف ہونا چاہیے۔ باقی سالوں کے برعکس اس سال کی زکوٰۃ فرض ہونی چاہیے۔ واللہ تعالیٰ أعلم۔ دوسری رائے یہ ہے، کہ اس قرض پر اب کوئی زکوٰۃ نہ ہوگی۔ البتہ اس کے حاصل ہوجانے پر اس کی زکوٰۃ دینا ہوگی۔ ایک قول کے مطابق صرف ایک سال کی، اور دوسرے قول کے مطابق گزشتہ سارے سالوں کی زکوٰۃ ادا کی جائے گی۔ یہ رائے حضرت علی، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہم اور بعض دیگر ائمہ کرام سے نقل کی گئی ہے۔ [1] دلیل: سب سالوں کی زکوٰۃ کے واجب ہونے کی دلیل یہ پیش کی جاتی ہے، کہ گزشتہ سب سالوں میں اس کی حالت ایک جیسی رہی، لہٰذا اس پر زکوٰۃ کے وجوب اور عدم وجوب کا حکم بھی ایک ہونا چاہیے۔
Flag Counter