Maktaba Wahhabi

189 - 227
والے]کو دوسری مرتبہ[بدلہ میں]قرض دے گا، تو یہ جائز نہیں، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کے معاملہ اور قرض[کو جمع کرنے]سے منع فرمایا ہے اور کیونکہ اس میں ایک معاملہ میں دوسرے معاملہ کی شرط لگائی گئی ہے، اس لیے یہ ناجائز ہے۔ ۳: سعودی عرب کے سابقہ مفتی اعظم شیخ ابن باز سے اسی بارے میں سوال کیا گیا، جو کہ درج ذیل ہے: [کسی شخص کو اس شرط پر قرض دینے کا حکم کیا ہے، کہ وہ معینہ مدت کے دوران قرض کی رقم واپس کر دے گا اور اتنی ہی رقم، اتنی ہی مدت کے لیے اپنے قرض دینے والے کو ادھا ردے گا۔ کیا یہ اس حدیث میں داخل ہے:’’ ہر قرض جو نفع حاصل کرنے کا سبب ہو، سود ہے ؟‘‘ یہ بات پیش نظر رہے، کہ قرض کی واپسی میں بڑھو تی طلب نہیں کی گئی] شیخ رحمہ اللہ جواب میں فرماتے ہیں: ’’ یہ قرض جائز نہیں، کیونکہ اس میں قرض کے عوض نفع کی شرط لگائی گئی ہے اور وہ دوسرا قرض ہے، جو کہ اب قرض لینے والا قرض دینے والے کو دے گا]اور علماء کا اس پر اجماع ہے، کہ ہر وہ قرض جس میں نفع کی شرط لگائی گئی ہو، وہ[نفع]سود ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی ایک جماعت نے فتویٰ دیا ہے، جو اس پر دلالت کرتا ہے۔ جہاں تک حدیث کہ[ہر قرض جو نفع حاصل کرنے کا سبب ہو، سود ہے]کا تعلق ہے، سو وہ ضعیف ہے، لیکن اس سلسلہ میں اعتماد حضرات صحابہ کے فتویٰ اور اہل علم کے اس کی ممانعت پر اجماع پر ہے۔ ‘‘[1]
Flag Counter