Maktaba Wahhabi

182 - 227
لینا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کے معاملہ اور قرض[کو جمع کرنے سے]منع فرمایا ہے،[حضرات صحابہ]ابی بن کعب، ابن مسعود اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے، کہ انھوں نے ہر اس قرض سے منع فرمایا، جو[قرض خواہ کے لیے]نفع کا سبب بنے۔ علاوہ ازیں قرض کا معاملہ تو[مقروض کے ساتھ]شفقت کے لیے ہے اور ایسی شرط اس[قرض]کو اپنے دائرے سے نکال دیتی ہے۔] علامہ ابن قدامہ ہی لکھتے ہیں: وَإِنْ شَرَطَ فِيْ القَرْضِ أَنْ یُوْجِرَہُ دَارَہُ لَمْ یَحُزْ لِأَنَّ النبيَّ صلي اللّٰه عليه وسلم نَہَی عَنْ بَیْعٍ وَسَلَفٍ، وَلِأَنَّہُ شَرَطَ عَقْدًا فِيْ عَقْدٍ،فَلَمْ یَجُرْ۔وَإِنْ شَرَطَ أَنْ یُؤْجِرَہُ دَارَہُ بِأَقَلَّ مِنْ أُجْرَتِھَا، أَوْعَلٰی أَنْ یَسْتَأجِرَ دَارَالْمُقْرِضِ بِأَکْثَرَمِنْ أُجْرَتِھَا، کَانَ أَبْلَغَ فِيْ التَّحْرِیْمِ۔[1] اور اگر اس[قرض دینے والے]نے یہ شرط لگائی، کہ وہ[یعنی مقروض]اس کو اپنا گھر کرایہ پر دے، تو جائز نہ ہو گا، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خرید و فروخت کے معاملے اور قرض[کو جمع کرنے]سے منع فرمایا ہے۔ علاوہ ازیں اس طرح ایک معاملے کو دوسرے معاملے کے لیے شرط ٹھہرایا جاتا ہے، لہٰذا ایسا کرنا درست نہیں۔ اور اگر اس[قرض دینے والے]نے یہ شرط لگائی، کہ وہ[یعنی مقروض]اس کو اپنا گھر حقیقی کرایہ سے کم پر دے گا، یا وہ[یعنی قرض لینے والا]اس[یعنی قرض دینے والے]کا مکان حقیقی کرایہ سے زیادہ پر لے گا، تو اس کی حرمت اور زیادہ شدید ہوگی۔
Flag Counter