Maktaba Wahhabi

179 - 227
فروخت کرے][1] امام احمد نے حدیث شریف کی شرح میں ایک اور صورت بھی بیان کی ہے: ’’وَیَحْتَمِلُ أَنْ یَکُوْنَ یُسْلِفُ إِلَیْہِ فِيْ شَيْئٍ، فَیَقُوْلُ:’’إِنْ لَمْ یَتَھیَّأ عِنْدَکَ، فَھُوَ بَیْعٌ عَلَیْکَ‘‘۔[2] [اوریہ[بھی]احتمال ہے، کہ وہ اس کو قرض دے اور اس سے کوئی چیز لے لے اور کہے:’’ اگر تمھارے پاس[ادائیگی کے لیے]رقم تیار نہ ہو سکے،تو[اس کے عوض]یہ[چیز]تمھاری طرف سے مجھ پر فروخت تصور کی جائے گی۔] شیخ الاسلام ابن تیمیہ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس حدیث شریف کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں: قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِیِّ صلي اللّٰه عليه وسلم أَنَّہُ قَالَ:’’لَا یَحِلُّ بَیْعٌ وَسَلَفٌ۔‘‘ فَإِذَا بَاعَہُ وَأَقْرَضَہَ کَانَ ذَلِکَ مِمَّا حَرَّمَہُ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ صلي اللّٰه عليه وسلم، وَکِلاَ ھُمَا یَسْتَحِقُّ التَّعْزِیْرَ، اِنْ کَانَ قَدْ بَلَغہ النَّہْيُ۔ ‘‘[3] [یقینا نبی کریم سے ثابت ہے، کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فروختگی اور قرض[کا جمع کرنا]جائز نہیں۔‘‘ سو جب اس نے اس کے ہاتھ[کوئی چیز]فروخت کی اور اس کو قرض[بھی]دیا، تو اس نے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے حرام کردہ کاموں میں سے ایک کا ارتکاب کیا۔ اگر پہلے سے ممانعت کا علم تھا، تو ان دونوں میں سے ہر ایک تعزیری سزا کا مستحق ہوگا]۔ ۲: اس میں عام طور پر تجارتی لین دین کو قرض کے بدلہ میں دی ہوئی رقم یا چیز کے بدلہ میں، اصل قرض سے زیادہ لینے کا ذریعہ بنایا جاتا ہے، اور قرض کے بدلے میں اصل
Flag Counter