Maktaba Wahhabi

171 - 227
[بَابُ لَعْنِ آکِلِ الرِّبَا وَمُؤْکِلِہِ][1] [سود کھانے اور کھلانے ولے پر لعنت کے متعلق باب] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اسی پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ انہیں گناہ میں برابر کا شریک قرار دیا۔ امام مسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے، کہ انہوں نے بیان فرمایا: ’’ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم آکِلَ الرِّبَاوَمُؤْکِلَہَ وَکَاتِبَہُ وَشَاھِدَیْہِ، وقَالَ:ھُمْ سَوَاء‘‘[2] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، اس کے کھلانے والے، اس کے لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی، اور فرمایا:’’وہ[گناہ میں]برابر ہیں۔‘‘ کیا مذکورہ بالا دونوں حدیثوں کی روشنی میں قرض کی ادائیگی میں تاخیر کی بنا پر کسی مسلمان کو ایساکام کرنے کا پابند کرنا درست ہو سکتا ہے، کہ جس کے کرنے کی بنا پر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا مستحق قرار پائے؟ ۲: اسلامی شریعت میں قرض کی واپسی کے لیے متعدد اخلاقی اور قانونی اقدامات ہیں، جن میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: ا: عدم ادائیگی اور تاخیر کا ظلم ہونا ب: ٹال مٹول کرنے والے مقروض کا فاسق قرار پانا اور اس کی گواہی کا مسترد ہونا ج: عزت کا مباح ہونا د: قید میں ڈالنا ہ: سفر پر پابندی و: اپنے مال کے استعمال سے محرومی ز: رہن شدہ چیز کی فروختگی
Flag Counter