Maktaba Wahhabi

164 - 227
’’ میں ایمان والوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھتا ہوں۔ اس لیے[اب]جو بھی اہل ایمان میں سے وفات پاجائے اور اس کے ذمہ قرض ہو، تو اس کا ادا کرنا میرے ذمہ ہے۔ اور جو کوئی مال چھوڑے، تو وہ اس کے وارثوں کے لیے ہے۔ ‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان اسلامی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے تھا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد، یہ ذمہ داری مسلمان حکام کی ہے۔ اس حدیث کی شرح میں حضراتِ محدثین نے اس بات کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔ ذیل میں ان میں سے تین کے اقوال ملاحظہ فرمائیے: ا: امام ابن بطال تحریر کرتے ہیں: وَھٰکَذَا یَلْزَمُ السُّلْطَانَ أَنْ یَفْعَلَہُ لِمَنْ مَاتَ وَعَلَیْہِ دَیْنٌ، فَإِنْ لَّمْ یَفْعَلْہُ وَقَعَ القَصَاصُ مِنْہُ فِيْ الْآخِرَۃِ، وَلَمْ یُحْبَسِ الْغَرِیْمُ عَنِ الْجَنَّۃِ بِدَیْنٍ، لَہُ مِثْلُہُ فِيْ بَیْتِ الْمَالِ وَإِلَّا فَبِقِسْطِہِ۔[1] سلطان پر لازم ہے، کہ وہ مقروض ہونے کی حالت میں فوت ہونے والے شخص کے ساتھ ایسا معاملہ کرے، اگر وہ ایسے نہیں کرے گا، تو آخرت میں اس سے قصاص لیا جائے گا۔ مقروض کو ایسے قرض کے ادا نہ کرنے کی وجہ سے جنت میں جانے سے روکا نہ جائے گا، کہ جس کے برابر اس کا بیت المال میں حق تھا۔ اگر ایسا نہ ہو، تو اس کے حصہ کے مطابق۔ [2] ب: حافظ ابن حجر لکھتے ہیں: ’’ وَھَلْ کَانَ ذٰلِکَ مِنْ خَصَائِصِہِ أَوْ یَجِبُ عَلیٰ وُلَاۃِ الْأَمْرِ
Flag Counter