Maktaba Wahhabi

158 - 227
’’ وَلَا یَجِبُ أَنْ یُتَصَدَّقَ عَلَیْہِ۔ وَمَنْ فَعَلَ ذٰلِکَ، أَوْ حَضَّ عَلَیْہِ کَانَ خَیْرًا لَہُ، وَفِیْہِ ثَوَابٌ کَثِیْرٌ۔ وَفِعْلُ النَّبِيِّ صلي اللّٰه عليه وسلم ذٰلِکَ بِمُعَاذٍ رضی اللّٰه عنہ لِیَتَبَیَّنَ خُصُوْمُہُ أَنَّہُ لَیْسَ عِنْدَہُ شَيْئٌ وَلِتَطِیْبُ قُلُوْبُھُمْ بِمَا أَخَذُوْا، فَیَسْھُلُ عَلَیْھِمْ تَرْکُ مَا بَقِيَ، وَلِیَخِفَّ الدَّیْنُ عَنْ مُعَاذٍ رضی اللّٰه عنہ وَلِیَتَشَارَکَ الْمُتَصَدِّقُوْنَ فِيْ أَجْرِ الْمَعُوْنۃِ وَثَوَابِھَا، وَلْیَکُنْ ذٰلِکَ سُنَّۃً حَسَنَۃً۔ ‘‘[1] ’’ اُس پر صدقہ کرنا واجب نہیں۔ اور جس نے کیا یا اس کی ترغیب دی، تو اس نے اپنے لیے بھلائی کی، اور اس میں بہت ثواب ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ یہ طرزِ عمل اس لیے اختیار کیا، تاکہ ان کے قرض خواہوں پر واضح ہوجائے، کہ ان کے پاس(دینے کے لیے)کچھ بھی نہیں اور جو کچھ وہ لے چکے ہیں، اس کے ساتھ ان کے دل راضی ہوجائیں اور قرض کا باقی حصہ چھوڑنا، ان کے لیے آسان ہوجائے۔ اور اسی طرح معاذ رضی اللہ عنہ سے قرض کی تخفیف ہوجائے، صدقہ کرنے والے تعاون کے اجر و ثواب میں شریک ہوجائیں، اور یہ[نادار قرض دار پر صدقہ کرنا]اچھی سنت بن جائے۔ ‘‘ تنبیہ: اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض داروں کو مفلس کے ہاں پائی جانے والی ہر چیز لینے کا حق دیا ہے۔ علامہ قرطبی شرح حدیث میں لکھتے ہیں: قَوْلُہُ:{خُذُوْا مَا وَجَدْتُّمْ} یَدُلُّ عَلیٰ أَنَّ الْمُفْلِسَ یُؤْخَذُ مِنْہُ کُلُّ مَا یُوْجُدُ لہ،وَیُسْتَثْنَی مِنْ ذٰلِکَ مَا کَانَ مِنْ ضَرُوْرَتِہِ۔
Flag Counter