Maktaba Wahhabi

119 - 227
کے متعلق دو آراء ہیں۔ ایک رائے عدم ادائیگی کی حالت میں اس کو بھی قید میں ڈالنے کی ہے۔ دوسری رائے کے مطابق یہ سزا صرف دولت مند مقروض کے لیے ہے۔ اسی سلسلے میں امام خطابی تحریر کرتے ہیں۔ ’’ فِيْ الْحَدِیْثِ دَلِیْلٌ عَلیٰ أَنَّ الْمُعْسِرَ لَا حَبْسَ عَلَیْہِ، لِأَنَّہُ أَبَاحَ حَبْسَہُ إِذَا کَانَ وَاجِدًا، وَالْمُعْدِمُ غَیْرُ وَاجِدٍ، فَلَا حَبْسَ عَلَیْہِ۔ وَقَدْ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِيْ ھٰذَا۔ فَکَانَ شُرَیْحٌ یَرَی حَبْسَ الْمَلِيْئِ وَالْمُعْدِمِ، وَإِلیٰ ھٰذَا ذَھَبَ أَصْحَابُ الرَّأْیِ۔ وَقَالَ مَالِکٌ:’’لاَ حَبْسَ عَلَی الْمُعْسِرِ، إِنَّمَا حَظُّہُ الإِْ نْظَارُ‘‘ وَمَذْھَبُ اَلشَّافِعيِّ أَنَّ مَنْ کَانَ ظَاھِرُ حَالِہِ الْعُسْرَ فَلاَ یُحْبَسُ، وَمَنْ کَانَ ظَاھِرُ حَالِہِ الْیَسَارَ حُبِسَ إِذَا مَتَنَعَ مِنْ أَدَائِ الْحَقِّ۔ ‘‘[1] ’’ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے، کہ تنگ دست پر قید نہیں، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تونگری کی صورت میں قید کو جائز قرار دیا ہے۔ اور مفلس کے ہاں تو تونگری نہیں، اسی لیے اس پر قید نہیں۔ اس بارے میں لوگوں میں اختلاف ہے۔ شریح دولت مند اور مفلس دونوں کو قید کرنے کے حامی تھے اور یہی نقطہ نظر اصحاب الرائے کا ہے۔ مالک اس بارے میں فرماتے ہیں:’’ تنگ دست پر قید نہیں۔ اس کا حق تو یہ ہے، کہ اس کو مہلت دی جائے۔ ‘‘ شافعی کا مذہب یہ ہے، کہ جو ظاہری طور پر تنگ دست ہو، اس کو قید نہ کیا جائے، اور جو تونگر نظر آئے، اس کو قرض واپس نہ کرنے کی صورت میں قید میں ڈال دیا جائے۔ ‘‘ میرے محدود فہم کے مطابق حدیث شریف سے امام خطابی کا استدلال، کہ تنگ دست
Flag Counter