Maktaba Wahhabi

102 - 227
’’ اگر تم توبہ کرلو، تو تمہاری اصل رقم تمہاری ہوگی، نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ ‘‘ امام الکیاالہر اس آیت کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں: ’’ وَیَدُلُّ عَلیٰ أَنَّ الْغَرِیْمَ مَتَی امْتَنَعَ مِنْ أَدَاء الدَیْنِ مَعَ الإِْمْکَانِ، کَانَ ظَالِمًا، فَإِنَّ اللّٰہَ یَقُوْلُ:{فَلَکُمْ رُؤُوْسُ أَمْوَالِکُمْ} فَجَعَلَ لَہُ الْمُطَالَبَۃَ بِرَأْسِ مَالِہِ، وَإِذَا کَانَ لَہُ حَقُّ الْمُطَالَبَۃ فَعَلَی مَنْ عَلَیْہِ الدَّیْنُ لَا مُحَالَۃَ وُجُوْبُ قَضَائِہِ۔ وَقُوْلُہُ تَعَالَی:{لَا تَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ} یَدلَّ عَلیٰ أَنَّ مَنْ عَلَیْہِ رَأْسُ الْمَالِ، بِالْاِمْتِنَاعِ مِنْ رَأْسِ الْمَالِ، إِلَیْہِ ظَالم، کَمَا أَنَّہُ بِطَلَبِ الزِّیَادَۃِ ظَالِمٌ۔ ‘‘[1] ’’[یہ آیت]اس بات پر دلالت کرتی ہے، کہ مقروض، استطاعت کے باوجود، ادا نہ کرنے کی صورت میں ظالم قرار پاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:[جس کے معانی کا ترجمہ یہ ہے:سو تمہارے اصل مال تمہارے ہوں گے]اس میں قرض خواہ کو اصل رقم کی واپسی کے مطالبہ کا حق دیا گیا ہے اور جب اس کو تقاضا کرنے کا حق ہے، تو لامحالہ مقروض پر اس رقم کی واپسی لازم ہوگی۔ اور ارشادِ باری تعالیٰ:[نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے]اس بات پر دلالت کرتا ہے، کہ مقروض اصل رقم ادا نہ کرنے سے ظالم قرار پاتا ہے، جیسا کہ قرض خواہ اصل رقم سے زیادہ کا تقاضا کرنے پر ظالم ٹھہرتا ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی استطاعت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں تاخیر کو ظلم
Flag Counter