Maktaba Wahhabi

52 - 104
ہے کہ قرآنِ کریم کو اللہ تعالیٰ نے یکبارگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل نہیں فرمادیا تھابلکہ تھوڑا تھوڑا کرکے پورے تئیس سالہ دورِ نبوت میں اسکا نزول مکمل ہوا تھا۔یہاں یہ بات بھی ذکر کردیں کہ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے نزولِ قرآن کی کیفیّت کے بارے میں تین اقوال ذکر کیے ہیں : 1 لوحِ محفوظ سے یکبارگی آسمانِ دنیا کے بیت العزت تک نازل کیا گیا۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے۔ 2ماہِ رمضان میں اسکے نازل کیے جانے کا معنیٰ یہ ہے کہ صیامِ رمضان کی غرض کیلئے اسے ماہِ رمضان میں نازل کیا گیا۔یہ قول امام مجاہد اور ضحاک رحمۃ اللہ علیہما سے مروی ہے۔ 3ماہِ رمضان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ قرآن کی ابتداء ہوئی۔یہ ابن اسحاق اور ابوسلیمان دمشقی رحمۃ اللہ علیہما کا قول ہے۔ شیخ عبداللہ بن زید آل محمود رحمہ اللہ (رئیس المحاکم الشرعیہ والشئون الدینیہ،قطر)نے اپنے رسالے’’کتاب الصیام وفضل شہررمضان‘‘میں اسی آخرالذکر قول کو صحیح قرار دیا ہے اور شیخ محمدعبدہٗ(شیخ الازہر)اور انکے شاگردِ رشید علّامہ محمد رشید رضا مصری سے بھی اسی قول کے صحیح ہونے کی تائید نقل کی ہے۔اس قول کے صحیح ہونے کی توجیہات اور حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کے قول سے اختلاف کی وجوہات بھی ذکر کی ہیں مثلاً: 1یہ بات یقینی ہے کہ قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا گیا ہے۔ 2لفظ’’قرآن‘‘ کا اطلاق کبھی پورے قرآن پر ہوتا ہے اور کبھی اسکے بعض اجزاء مراد ہوتے ہیں۔ 3اگر یہ مان لیں کہ قرآن ماہِ رمضان میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا(بیت العزت) تک یکبارگی نازل کیا گیا اور پھر وہاں سے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا گیا تو یہ تفسیر قرآن کے ظاہری الفاظ کے خلاف ہے،کیونکہ ارشادِ الٰہی تو یہ ہے: { شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ}
Flag Counter