Maktaba Wahhabi

80 - 104
یہاں شھر سے مراد ہلال ہے (جو قلم کیے گئے ناخن جیسا ہوتا ہے) اس تعظیم کے حکم کو ہلال کے ساتھ معلّق کرنے کا متقاضِی تھا لہٰذا اب اس نام(رمضان) کا مہینہ چاہے جب بھی آئے اور جس سال میں بھی آئے(اِس تعظیم وشرف کا حامل ہے) تیسرا فائدہ: رمضان کے ساتھ قرآنِ کریم میں لفظ شھر کی آمد کا تیسرا فائدہ’’ایامِ معدودات‘‘ کی وضاحت وتبیین ہے کیونکہ گنے چنے دنوں کی وضاحت دنوں اور ماہ کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے یہ وضاحت لفظ رمضان سے تو ہو نہیں سکتی کیونکہ اس لفظ کا مادہ دوسرا ہے اور وہ بھی عَلم ہے۔لہٰذا یہ ٹھیک نہیں کہ اسی سے گنے چنے دنوں کی وضاحت کی جائے جب تک کہ ماہ کا ذکر نہ کیا جائے جوکہ ایام ہی کے معنیٰ میں ہے اور پھر ان ایام کی وضافت اسکی طرف نہ کردی جائے۔ لفظِ رمضان کو شھر کی اضافت کے بغیر لانے کا فائدہ: قرآنِ کریم میں رمضان کے ساتھ شھر کی آمد کے فوائد کو ذکر کرنے کے بعد علّامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی اس کتاب بدائع الفوائد میں احادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں شھر کی اضافت کے بغیر صرف لفظِ رمضان کی آمد کا فائدہ بھی ذکر کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد: ((مَنْ صَامَ رَمَضَانَ.... وَمَنْ قَامَ رَمَضَانَ)) میں سے لفظ شھر کو حذف کرنے کا بھی ایک فائدہ ہے اور وہ یہ کہ اسطرح سارے مہینے کے روزے آجاتے ہیں۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایاہوتا:((مَنْ صَامَ اَوْقَامَ شَھْرَ رَمَضَانَ))تو یہ رمضان ظرف ہوجاتا اور اس جملہ میں ’’فی‘‘مقدّر ہوتایعنی یہ ہوجاتا:((مَنْ صَامَ فِیْ رَمَضَانَ۔مَنْ قَامَ فِیْ رَمَضَانَ) اسطرح یہ تعبیر پورے ماہ رمضان کے روزوں اور قیام کو شامل نہ ہوتی پس ان احادیث میں رمضان’’مفعول علیٰ السعۃ‘‘ہے۔جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے:{قُمِ اللَّیْلَ}کیونکہ اگر
Flag Counter