Maktaba Wahhabi

96 - 104
(لِکُلِّ اَہْلِ بَلَدٍ رُؤْیَتُھُمْ) ’’ہر ملک کی اپنی اپنی رؤیت ہے‘‘ کا یہی مطلب ہے کہ ایسے ملکوں کی اپنی اپنی رؤیت ہے۔[1] اس مجمل مسافت یا دوری کی مزید وضاحت اس امر سے بھی ہوجاتی ہے کہ علمِ ہئیت وجغرافیہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غروبِ آفتاب کے وقت چاند اگر کسی ملک میں آٹھ درجے بلند ہے تو وہ غروبِ آفتاب کے بعد تیس(۳۰) منٹ تک رہے گا۔ایسا چاند اس مقامِ رؤیت سے مشرقی علاقہ میں پانچ سو ساٹھ(۵۶۰) یا پانچ سو(۵۰۰) میل تک ضرور موجود ہوگاتو گویا جہاں چاند نظر آجائے وہاں سے مشرق کی جانب پانچ سو ساٹھ(۵۶۰) یا کم از کم پانچ سو(۵۰۰) میل تک طلوعِ ہلال کا اعتبار ہوگا۔اس سے آگے نہیں اور مقامِ رؤیت سے مغربی جانب کے ممالک میں مطلقاً رؤیتِ ہلال کا اعتبار ہوگا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیّہ رحمہ اللہ نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ مشرق میں چاند نظر آجائے تو مغرب میں اسکا طلوع ضروری ہے لیکن مغرب میں اسکے دیکھے جانے سے مشرق میں بھی اسکا دیکھا جانا ضروری نہیں۔[2] علماء وفقہائِ احناف کی نظر میں : پاک و ہند کے معروف حنفی عالم ومحقّق مولانا عبدالحئی لکھنویؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور مختلف فقہاء کی کتابوں سے اقتباسات بھی نقل کیے ہیں مثلاً وہ ’’مراقی الفلاح‘‘ نامی کتاب سے اسکے مصنّف کا اختلافِ مطالع کے بارے میں نظر یہ انکے اپنے الفاظ سے یوں نقل کرتے ہیں : (وَقِیْلَ یَخْتَلِفُ ثُبُوْتُہٗ بِاِخْتِلَافِ الْمَطَالِعِ وَاخْتَارَہٗ صَاحِبُ
Flag Counter