Maktaba Wahhabi

105 - 104
اس حدیث کی روشنی میں اکتیسواں روزہ رکھنا بھی واجب قرار دیتے ہیں۔[1] اس فتویٰ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس صورت میں اکتیسواں روزہ بھی نفلی طور پر نہیں بلکہ وجوباً رکھنا ہوگا جبکہ یہ بات موصوف کے خود اپنے قول کہ’’کوئی عربی مہینہ انتیس دنوں سے کم ہوتا ہی نہیں ‘‘کے مفہوم کے خلاف ہے کیونکہ جسطرح کوئی عربی مہینہ انتیس دنوں سے کم نہیں ہوتا اُسی طرح ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی عربی مہینہ تیس دنوں سے بالاتفاق زیادہ بھی نہیں ہوتا جیسا کہ علاّمہ ابن رشد نے رمضان المبارک کے روزوں کی کم از کم تعداد ۲۹ اور زیادہ سے زیادہ ۳۰ پر اجماعِ اُمت نقل کیا ہے۔[2] غرض صورتِ حال پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ روزہ رکھنا ہی افضل واحوط ہے وجوباً ہو یا نفلاً۔ طویل الاوقات علاقوں میں روزہ: رؤیتِ ہلال کے ضمن میں ہی یہ بات بھی آتی ہے اور پیش بھی آسکتی ہے کہ کوئی شخص کسی ایسے مقام پر قیام پذیر ہو جہاں وقت کے پیمانے الگ ہی ہوں مثلاً ہماری طرح چوبیس[۲۴] گھنٹے کے شب وروز نہ ہوں بلکہ بائیس[۲۲] گھنٹوں کا دن اور دوگھنٹوں [۲] کی رات ہو یا پھر وہاں طویل عرصہ تک دن رہے اور پھر طویل عرصہ تک رات رہے تو ایسے طویل الاوقات علاقوں میں روزہ کیسے رکھا جائیگا؟ اس سلسلہ میں پہلے یہ بات پیشِ نظر رکھیں کہ روزہ کے اوقات کے بارے میں قرآن وسنّت میں تصریح موجود ہے کہ طلوعِ فجر سے روزے کا آغاز اور غروبِ آفتاب پر اسکا اختتام ہوتا ہے اور بعض جُزوی باتوں پر معمولی اختلاف سے قطع نظر یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے جس سے یہ تو ظاہر ہے کہ اسکے اصل اوقات یہی ہیں۔جغرافیائی اور موسمی حالات کے لحاظ سے ان میں کمی
Flag Counter