Maktaba Wahhabi

95 - 104
یہ ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے جو’’اختلافِ مطالع‘‘ کے عنوان سے محدّثینِ عظام اور فقہائِ کرام میں عہدِ قدیم سے ہی معروف چلا آرہا ہے اور اہلِ علم نے اس موضوع پر بڑی طول طویل بحثیں لکھی ہیں جن سے شروح ِحدیث اور کتبِ فقہ بھری پڑی ہیں اور انہوں نے اس مسئلہ کو نکھارنے کا حق ادا کردیا ہے۔ان تمام بحوث کا خلاصہ جسے’’عطرِ گل‘‘ کہا جاسکتا ہے یہ ہے کہ: پوری دنیا میں چاند کا مطلع یا وقتِ طلوع ایک نہیں ہوسکتا بلکہ بعض ممالک میں چاند شام کو نظر آسکتا ہے جبکہ دوسرے دور کے ممالک میں اُسی دن چاند کا نظر نہ آنا آج ایک کھلی ہوئی حقیقت بن چکا ہے لہٰذا اختلافِ مطالع کا اعتبارکیا جائیگا یعنی یہ ضروری نہیں کہ جس دن سعودی عرب اور قریبی خلیجی ریاستوں یا ممالک میں روزہ یا عید ہو اُسی دن پاک و ہند اور دنیا کے دیگر دور افتادہ ملکوں میں بھی ہو اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جس دن ایران وافغانستان میں روزہ یا عید ہو اُسی دن انڈیا اور بنگلادیش میں بھی ہو بلکہ ہر ملک کی اپنی اپنی رؤیت ہے اور وہاں کے رہنے والے لوگ اسی کے پابند ہیں۔ اس بات کو احناف نے بھی مانا ہے۔[1] مطالع میں اختلاف کے لیے مسافت: یہاں یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ وہ دوری کتنی ہے کہ جس میں دو جگہوں یا ملکوں میں چاند کا مختلف دنوں میں نظر آنا ممکن ہے اور اس دوری ومسافت پر واقع ممالک کی اپنی اپنی رؤیت شمار ہوگی۔ اس مسافت کے سلسلہ میں بھی فقہاء اور اہلِ علم نے متعدد آراء ظاہر کی ہیں بعض نے مجمل طور پر لکھا ہے کہ عراق وحجاز اور شام ایسے ممالک ہیں اور اتنی دوری پر واقع ہیں کہ وہاں کے لوگوں کے لیے ایک دوسرے کے ملک کی رؤیت کافی نہیں اور نہ ہی وہ دوسرے ملک کی رؤیت پر عید کرنے یا روزہ رکھنے کے پابند ہیں بلکہ ان تینوں ملکوں میں سے ہر ملک خود اپنی رؤیت پر انحصار کریگا۔اور حضرت عکرمہ رحمہ اللہ کے ارشاد:
Flag Counter