Maktaba Wahhabi

79 - 104
کی بات ہوسکتی ہے اور یہ بھی محال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی حکمت کے بغیر ہی لفظ شھر کو ترک کردیا ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت بڑے فائدہ اور عظیم مقصد کے پیشِ نظر کیا گیا ہے۔ اور آگے ایک اہم علمی بحث اورفوائد ذکر کرنے کے بعد نتیجہ کے طور پر لکھا ہے کہ قرآنِ کریم میں رمضان کے ساتھ شھر کی آمد کے دو یا اس سے بھی زیادہ فائدے ہیں : پہلا فائدہ: ان میں سے پہلا فائدہ یہ ہے کہ اگر قرآن میں اس مقام پر اللہ نے فرمایا ہوتا:{رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرآنُ} تو اس لفظِ رمضان کا یہ تقاضا ہوتا کہ انزالِ قرآن کا وقوع اس پُورے مہینے میں شمار ہوجیسا کہ سیبویہ کا قول گزرا ہے۔(ایک سابقہ علمی بحث کی طرف اشارہ ہے) جبکہ یہ بات(پورے مہینہ میں وقوع) خلافِ حقیقت ہے کیونکہ قرآن کا نزول تو صرف ایک رات اور اسکی بھی ایک گھڑی میں و اقع ہوا تھا،لہٰذا پورے ماہ کو کیسے لیا جاسکتا ہے۔لہٰذا لفظِ شھر کا ذکر حقیقت کے موافق ہے۔جیسے آپ کہیں :(سِرْتُ فِیْ شَھْرِ کَذَا)(میں فلاں مہینہ میں چلا) تو یہ چلنا پورے مہینے کو متناول وشامل نہیں ہوتا۔ د و سرا فائدہ: لفظِ شھر کو رمضان کے ساتھ لانے کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اگر کہا گیا ہوتا:{رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرآنُ}تو یہ مدح وتعظیم خاص اُس ماہ پر ہی منحصر ومحدود رہتی جس میں قرآن نازل کیا گیا تھا(اور آئندہ سالوں میں آنے والے رمضان کے مہینے اس سے خارج ہوجاتے)جبکہ یہ بات گزرگئی ہے کہ یہ اور ایسے ہی دوسرے اسماء کے ساتھ سالوں کے استمرار پر دلالت کرنے والا کوئی قرینہ نہ ہو تو اس سے مراد صرف وہی سال ہوگا جس میں تم ہویا جو اس سے پہلے مذکورہوا ہے۔تو شھر کا ذکر(جو کہ درحقیقت ہلال ہے جیسا کہ کسی شاعر نے کہا ہے: ع وَالشَّھْرُ مِثْلَ قَلَامَۃِ الظُّفْرِ
Flag Counter