Maktaba Wahhabi

85 - 104
’’رمضان سے (دوایک دن)پہلے روزہ نہ رکھو،چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور اسے دیکھ کر ہی عید کرو۔ہاں اگر اسکے سامنے کچھ حائل(ابر یا غبار) ہوتو(ماہِ رواں کے) تیس(۳۰) دن مکمل کرلو۔‘‘ ایسے ہی صرف دوایک دن رمضان سے پہلے تو کیا،ایک حدیث سے تو پتہ چلتا ہے کہ شعبان کا جب دوسرا نصف شروع ہوجائے تو پھر نفلی روزے رکھنا چھوڑ دینا چاہیئے چنانچہ ابوداؤد ترمذی، ابن ماجہ اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ((اِذَا بَقِیَ نِصْفُ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا)) [1] ’’جب نصفِ شعبان باقی رہ جائے تو روزہ نہ رکھو۔‘‘ اہل علم نے پندرہ شعبان کے بعد نفلی روزے نہ رکھنے کے حکم کی حکمت ومصلحت یہ بیان کی ہے کہ آئندہ چونکہ ماہِ رمضان المبارک کے فرض روزے آرہے ہیں لہٰذا نفلی روزے نہیں رکھنے چاہییں تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ نفلی روزوں سے آدمی کے قوائے جسمانی کمزور پڑجائیں اور اسکے نتیجہ میں کہیں کسی فرض روزے کی قضاء کی نوبت نہ آجائے۔[2] بہرحال رمضان سے دوایک دن پہلے امام مالک وشافعی رحمۃ اللہ علیہما سمیت جمہور اہلِ علم کے نزدیک شک کی بناء پر روزہ رکھنا منع ہے۔[3] ایامِ رمضان کل تعداد: مروجہ عالمی تقویم یا عیسوی کیلنڈر کے مہینوں پر نظرڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسکے بعض مہینے اکتیس(۳۱) دنوں کے ہوتے ہیں اور بعض تیس(۳۰) کے۔جبکہ فروری تین سال تک تو
Flag Counter