Maktaba Wahhabi

10 - 104
’’اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیاگیاہے، جسطرح تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم میں تقویٰ وپرہیزگاری کی صفت پیدا ہو۔‘‘ قرآنی احکام و مسائلِ روزہ: اگلی آیات میں روزے کے مختلف احکام و مسائل ذکر کیے گئے ہیں چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے: { اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ ط فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَط وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَخَیْرٌلَّہٗ ط وَاَنْ تَصُوْمُوْاخَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} (سورۃالبقرہ:۱۸۴) ’’یہ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں،پس تم میں سے جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں اس گنتی کو پورا کرلے،اور طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں اور جو شخص نیکی میں سبقت کرلے، وہ اسکے لیے بہتر ہے،لیکن تمہارے حق میں افضل کام روزے رکھنا ہی ہے۔اگر تم علم رکھتے ہو۔‘‘ یہاں یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ابتدائے اسلام میں جب لوگ ابھی روزہ رکھنے کے عادی نہیں ہوئے تھے تو اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ رعایت دے رکھی تھی کہ چاہے تم خود روزہ رکھو یا فدیہ میں کسی مسکین کو کھانا کھلادو۔تمہیں اختیار ہے،مگر تمہارے لیے بہتر روزہ رکھنا ہی ہے ۔اور جب لوگوں کے دلوں میں ایمان راسخ ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ رعایت ختم فرمادی اور حکم دے دیا کہ روزہ ہی رکھنا ہوگا۔اسطرح اس رخصت ورعایت کو اس سے اگلی ہی آیت نے منسوخ کردیاجیسا کہ متعدد احادیث سے بھی پتہ چلتا ہے۔لیکن صحیح بخاری اور دیگر کتب ِ حدیث میں ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول مروی ہے جسکی رو سے بظاہر یوں
Flag Counter