Maktaba Wahhabi

475 - 559
اس قسم کا تعزیتی اجتماع درست نہیں، میت کے گھر والوں کے لیے تو کھانا تیار کیا جانا چاہیے لیکن جب دور و نزدیک سے لوگ آ کر تعزیت کے نام پر مہمان بن بیٹھتے ہیں تو کھانا تیار کرنے والے کو ان سب کے لیے کھانا تیار کرنا ہوتا ہے جو ایک ناروا بوجھ ہے۔ اس طرح کے اجتماع کو نوحہ سے تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ نوحہ میں بھی عورتوں کا اجتماع ہوتا ہے اور اس اجتماع کا مقصد سوائے اظہار افسوس کے اور کچھ نہیں ہوتا۔ جبکہ یہ مقصد اس طرح جمع ہوئے بغیر بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ بلکہ ہمارے نزدیک تو تعزیت کے لیے تین دن کی تحدید بھی درست نہیں بلکہ جب بھی موقع ملے تو تعزیت کی جا سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت پر ان کے اہل خانہ سے تین دن کے بعد تعزیت فرمائی تھی جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ [1] علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’تعزیت کے لیے دو باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے: ٭ گھر یا مسجد میں کسی خاص مقام پر تعزیت کے لیے اجتماع کرنا۔ ٭ اہل بیت کی طرف سے آنے والے مہمانوں کے لیے کھانے کا اہتمام کرنا۔ (احکام الجنائز) صورت مسؤلہ میں دونوں باتوں کا اہتمام ہوتا ہے کہ تعزیت کے لیے مسجد میں اجتماع ہوتا ہے اور آنے والوں کے لیے کھانے کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے، یہ دونوں باتیں محل نظر ہیں۔ ہمارے نزدیک بریلوی حضرات کا فوتگی کے تیسرے دن قل خوانی کا اہتمام اور اہل حدیث حضرات کا مسجد میں تقریر اور اس کے بعد میت کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام اور کھانے وغیرہ کا بندوبست، ان دونوں میں اصولی طور پر کوئی فرق نہیں۔ یہ سب حیلے بہانے ہیں جو مروجہ رسوم و بدعات کو مشرف با اسلام کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تعزیت سے مراد اہل میت کو صبر کی تلقین، ان کے لیے دعا خیر اور میت کے لیے دعا مغفرت کرنا ہے۔ اس کے لیے کسی دن یا جگہ کی تعین قطعاً درست نہیں۔ تعزیت کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ جس کسی کی جہاں کہیں میت کے کسی قریبی رشتہ دار سے ملاقات ہو وہاں تعزیت کر لے یا اگر کسی اہل میت کے ہاں جائے تو تعزیت کر کے واپس آجائے۔ وہاں بلا ضرورت اخبار بینی کے لیے بیٹھ رہنا پھر وہاں رشتے داروں اور ہمسایوں کا مجمع رہنا خلاف سنت ہے۔ چنانچہ علامہ نووی لکھتے ہیں: ’’تعزیت کے لیے اہتمام کے ساتھ بیٹھنا امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب نے اسے ناپسند کیا ہے کہ اہل بیت ایک خاص مقام پر جمع ہوں اور تعزیت کرنے والے وہاں جمع ہوں، بلکہ اہل بیت کو چاہیے کہ وہ اپنے کام کاج میں مصروف ہوں، وہاں ان سے تعزیت کر لی جائے۔ اس میں مردوں اور عورتوں کے اجتماع میں کوئی فرق نہیں۔ بہرحال یہ اجتماع محل نظر ہے۔‘‘[2]
Flag Counter