Maktaba Wahhabi

463 - 559
ہمارے یہاں مختلف مکاتب فکر پائے جاتے ہیں، ان میں فکری ہم آہنگی انتہائی ضروری ہے۔ فکری ہم آہنگی کے بغیر تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں اذان دینے سے اتحاد و یکجہتی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکے گا۔ ہمارے رحجان کے مطابق درج ذیل آیات کو محور بنا کر مختلف مسالک میں فکری ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ ٭ اختلاف کی صورت میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ قطعی ہو گا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا اخْتَلَفْتُمْ فِيْهِ مِنْ شَيْءٍ فَحُكْمُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ﴾[1] ’’تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف ہے۔‘‘ ٭ متنازعہ امور میں قرآن و سنت کی طرف رجوع کیا جائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ ﴾[2] ’’اگر کسی معاملہ میں تمہارے درمیان نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف پھیر دو۔‘‘ ٭ پیروی صرف اس امر کی ہونی چاہیے جو اللہ تعالیٰ نے اتارا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِتَّبِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِيَآءَ﴾[3] ’’جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے، اس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو۔‘‘ اگر مذکورہ بالا آیات کو محور بنا کر اتحاد و یکجہتی کی کوشش کی جائے تو امید ہے کہ یہ کوشش سود مند اور ثمر آور ثابت ہو گی بصورت دیگر اختلافات میں مزید اضافہ ہو گا۔ پھر تمام مساجد میں بیک وقت اذان دینے سے مسائل حل نہیں ہوں گے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایسا نہیں تھا کہ مدینہ طیبہ کی تمام مساجد میں ایک ہی وقت میں اذان ہوتی ہو بلکہ مختلف مساجد میں اذان اور جماعت میں تھوڑا فرق تھا۔ جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے: ٭ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نماز عشاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمرا ہ ادا کرتے پھر اپنی قوم کے ہاں تشریف لاتے اور انہیں نماز عشاء پڑھاتے۔‘‘[4] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بنی سلمہ کی مسجد کے امام تھے، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز عشاء باجماعت ادا کرتے، پھر اپنی قوم کی امامت کراتے تھے۔‘‘[5]
Flag Counter