Maktaba Wahhabi

429 - 559
حیثیت رکھتے ہیں ان سے پردہ کرنا بھی ضروری ہے بشرطیکہ وہ حد بلوغ کو پہنچ جائیں اور ایسے غیر محرم رشتے داروں کو چاہیے کہ وہ گھر میں آئیں تو اجازت لے کر آئیں، اگر کوئی چیز لینا ہو تو پردے کی اوٹ سے لیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں جن پر عمل کرنا ہم سب کا فرض ہے، اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق دے۔(آمین!) لمبے ناخن رکھنا سوال: میں نے شوقیہ طور پر اپنے بائیں ہاتھ کے ناخن بڑھا رکھے ہیں، کیا ایسا کرنا گناہ ہے۔ ایسے لمبے ناخنوں کی موجودگی میں نماز ہو جاتی ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: ہمارا دین اسلام ، دین فطرت ہے، کیوں کہ یہ انسان کے فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ مونچھیں کترانے، داڑھی بڑھانے، مسواک کرنے، وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانے، کلی کرنے، ختنے کرانے، ناخن تراشنے، زیر ناف بال مونڈنے، بغلوں کی صفائی کرنے، استنجاء کرنے اور بدن کی مختلف ہڈیوں کے جوڑ دھونے کو اسلام نے امور فطرت میں شمار کیا ہے۔ گویا ان کی صفائی کا اہتمام، انسانی طبع کا تقاضا ہے اور ان میں سستی کا مظاہرہ گندگی پھیلانے کا باعث ہے۔ ان امور فطرت میں ناخن کاٹنا بھی شامل ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ناخن نجاست اور میل کچیل کو جمع رکھنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں، اس لیے انہیں تراشنے اور صاف رکھنے کا حکم ہے۔ ناخن بڑھے ہوئے ہوں تو دیکھنے میں بھی برے لگتے ہیں۔ لمبے ناخن رکھنا، انسانی فطرت سے بغاوت اور انبیاء علیہم السلام کی سنت سے روگردانی کرنا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جسے کوئی انسان غیر ضروری بالوں کی صفائی کرنا چھوڑ دے، ہاتھ منہ کو بھی نہ دھوئے۔ ناخن بڑھانا انسانی شیوہ نہیں بلکہ حیوانی خصلت ہے، اس لیے شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم گرامی ہے: ’’پانچ چیزیں فطری ہیں، مونچھوں کا کاٹنا، بغلوں کے بال اکھیڑنا، ناخن تراشنا، بال صاف کرنا اور ختنہ کرنا۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل و صورت میں پیدا کیا ہے، حیوانات کے ساتھ اس کی مشابہت اللہ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ بڑے ناخن کسی کو یا اپنے آپ کو زخمی کر سکتے ہیں۔ اس لیے فطرت سلیمہ کا تقاضا ہے کہ انہیں بڑھایا نہ جائے بلکہ زائد ناخن تراش دئیے جائیں۔ شریعت نے ان فطری امور کے لیے زیادہ سے زیادہ چالیس دن مقرر فرمائے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان فطری امور کی صفائی کے لیے یہ مدت مقرر کی ہے کہ ہم چالیس دن سے زیادہ نہ گزرنے دیں۔ [2] بدذوقی کی انتہاء یہ ہے کہ آج کل بازار سے مصنوعی ناخن لے کر ان پیدائشی ناخنوں کے ساتھ لگا دئیے جاتے ہیں، تاکہ دیکھنے میں زیادہ لمبے نظر آئیں۔ بہرحال شریعت نے انہیں کاٹنے کا حکم دیا ہے، اگر صفائی کا خیال رکھا جائے تو لمبے ناخنوں کی موجودگی میں نماز تو ہو جائے گی لیکن ناخن بڑھانے کا گناہ اپنی جگہ پر قائم رہے گا جو ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔
Flag Counter