Maktaba Wahhabi

390 - 559
ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک اونٹ کو دس بکریوں کے مساوی قرار دیا تھا، اس مسئلہ کی وضاحت قرآن و حدیث سے کریں۔ جواب: جس حدیث کا سوال میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا تھا وہ حسب ذیل ہیں: ’’سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم تہامہ کے علاقہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر تھے، ہمیں وہاں غنیمت میں اونٹ اور بکریاں ملیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مالِ غنیمت تقسیم کرتے وقت ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا۔‘‘[1] اس حدیث کو قربانی میں ایک اونٹ میں دس آدمیوں کی قربانی کے جواز میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے لیکن یہ دلیل حسب ذیل وجوہ کی بناء پر واضح اور صریح نہیں ہے۔ ٭ ممکن ہے کہ اس وقت اونٹ کم ہوں اور بکریاں زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر شمار کیا گیا ہو۔ ٭ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اونٹ، عمدہ، تندرست ہوں اور بکریاں دبلی ہونے کی وجہ سے دس بکریوں کو ایک اونٹ کے مساوی قرار دیا ہو۔ اس حدیث کی وجہ سے ایک اونٹ میں دس افراد کی شرکت انتہائی محل نظر ہے، البتہ قربانی کے موقع پر ایک اونٹ میں دس افراد کے شریک ہونے کا ذکر دوسری حدیث سے ثابت ہے جس کی تفصیل ہم بیان کرتے ہیں۔ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، اس دوران عید الاضحی آ گئی تو ہم نے دس دس آدمیوں کی طرف سے ایک ایک اونٹ اور سات سات آدمیوں کی طرف سے ایک ایک گائے مشترکہ طور پر ذبح کی۔[2] جبکہ ایک دوسری حدیث میں سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ایک اونٹ سات افراد کی طرف سے اور گائے سات افراد کی طرف سے ذبح کی۔[3] لیکن ان دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں کیوں کہ اونٹ میں دس افراد کی شراکت کا واقعہ قربانی کے موقع کا ہے، جبکہ سات افراد کی شراکت کا تعلق حج و عمرہ سے ہے، جیسا کہ روایت میں اس کی صراحت ہے کہ ایسا کرنا حدیبیہ کے موقع پر تھا۔ بعض اہل علم نے دوران سفر اونٹ کو دس قربانیوں کے برابر قرار دیا ہے جبکہ حضر میں سات کے برابر، کچھ حضرات صاحب ثروت اور مالی اعتبار سے کمزور کا فرق کرتے ہیں کہ مال دار سات شریک ہوں اور غریب حضرات دس تک شراکت کر سکتے
Flag Counter