Maktaba Wahhabi

372 - 559
جواب: دین اسلام میں صحت نکاح کے لیے کئی ایک شرائط ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ لڑکی بھی رضامند ہو۔ جیسا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’شوہر دیدہ کی شادی اس کے مشورہ کے بغیر نہ کی جائے اور نہ ہی کنواری لڑکی کا نکاح اس سے اجازت لیے بغیر کیا جائے۔‘‘ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی اجازت یہ ہے کہ وہ پوچھنے پر خاموش رہے۔‘‘[1] اس حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ((باب لا ینکح الاب وغیرہ البکر والثیب الابرضاھا)) ’’باپ یا کوئی دوسرا سرپرست کنواری اور بیوہ کا نکاح اس کی رضامندی کے بغیر نہ کرے۔‘‘[2] اس حدیث کی بناء پر اگر کوئی لڑکی کسی سے نکاح نہیں کرنا چاہتی تو اسے اس سے نکاح کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا اور اس اقدام پر اسے نافرمانی شمار نہیں کیا جائے گا۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ والدین کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی بچی کا نکاح ایسے شخص سے کریں جسے وہ نہیں چاہتی، اگر وہ نکاح سے رک جاتی ہے تو وہ نافرمان شمار نہیں ہو گی۔[3] امام بخاری رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں ایک مزید عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ((باب اذا زوج ابنتہٗ وہی کارہۃ فنکاحہ مردود)) ’’جب کوئی اپنی بیٹی کا زبردستی کہیں نکاح کر دے تو ایسا نکاح مردود ہے۔‘‘[4] پھر اس عنوان کو ثابت کرنے کے لیے ایک حدیث لائے ہیں کہ خنساء بنت حرام رضی اللہ عنہا کا نکاح ان کے باپ نے ان کی مرضی کے بغیر کر دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نکاح کو مسترد کر دیا تھا۔[5] بہرحال شریعت نے افراط و تفریط کے درمیان اعتدال کا راستہ اختیار کیا ہے کہ نہ تو عورت کو کھلی آزادی دی ہے کہ وہ جب چاہے جہاں چاہے اپنا نکاح خود کر لے اور نہ ہی وہ اس قدر مجبور ہے کہ اس کا سرپرست جب چاہے، جہاں چاہے اس کی مرضی کے بغیر اس کا عقد کر دے، اور وہ مجبور ہو کر خاموشی سے اس کو قبول کر لے۔ صورت مسؤلہ میں والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی بچی کو اعتماد میں لیں اور اسے دلائل کے ساتھ قائل کر کے پھر اس کا نکاح کریں۔ واللہ اعلم!
Flag Counter