Maktaba Wahhabi

328 - 559
جواب: مہر، اس مال کو کہتے ہیں جو نکاح کے وقت یا اس کے بعد عورت کو ازدواجی تعلقات کے عوض کے طور پر دیا جاتا ہے، قرآن و سنت کے مطابق اس کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر موقع پر ادا کر دیا جائے تو اسے مہر معجل اور اگر بعد میں کسی وقت ادا کرنا پڑے تو مہر مؤجل کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً١﴾[1] ’’تم عورتوں کو ان کے حق مہر خوشی خوشی ادا کرو۔‘‘ ہاں اگر بیوی اپنی خوشی سے معاف کر دے تو اس کی ادائیگی ضروری نہیں، قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ مہر کے کم از کم یا زیادہ سے زیادہ کی مقدار مقرر نہیں، خاوند اپنی استطاعت کے مطابق ایک خزانہ بھی بطور حق مہر دے سکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَّ اٰتَيْتُمْ اِحْدٰىهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَاْخُذُوْا مِنْهُ شَيْ﴾[2] ’’اگر تم نے ان عورتوں میں سے کسی کو خزانہ بھی دیا ہو تو طلاق کے وقت تم اسے واپس لینے کے مجاز نہیں ہو۔‘‘ معمولی سے معمولی چیزیں بھی مہر میں دی جا سکتی ہیں جیسا کہ ایک شخص سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تلاش کرو، اگرچہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔‘‘[3] کچھ بھی پاس نہ ہو تو تعلیم القرآن کو ہی حق مہر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا تھا: ’’جو تمہیں قرآن کا کچھ حصہ یاد ہے میں نے اس کے عوض شادی کردی۔‘‘[4] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ کم از کم یا زیادہ سے زیادہ حق مہر کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔ شادی کے موقع پر سسرال کی طرف سے لڑکی کو جو زیور دیا جاتا ہے، اگر نکاح کے موقع پر اس کے حق مہر ہونے کی صراحت کر دی جائے تو اسے مہر میں ہی شامل کیا جائے گا، اس کی واپسی کا مطالبہ شرعا جائز نہیں۔ اگر مہر کی صراحت نہ ہو بلکہ خاوند کی طرف سے بطور تحفہ دیا جائے تو بھی وہ بیوی کی ملکیت ہو گا، اس کا واپس لینا بھی جائز نہیں۔ اگر شوہر نے بیوی کو زیور استعمال کے لیے دیا ہے تو وہ زیور شوہر کا ہی شمار ہو گا البتہ بیوی کو صرف اسے استعمال کرنے کا حق ہو گا، اس کی واپسی کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر زیور دیتے وقت کسی چیز کی صراحت نہ تھی تو معاشرتی طور پر برادری کے رواج کے مطابق فیصلہ ہو گا کہ خاندانی طور پر ایسے موقع پر زیور کس غرض سے دیا جاتا ہے۔ بہرحال انسانی وقار اور شرافت کے خلاف ہے کہ بیوی کو کوئی چیز دے کر پھر اس کی واپسی کا مطالبہ کیا جائے۔ واللہ اعلم!
Flag Counter